اڈوانی اور نریندر مودی میں ٹکراؤ بڑھ رہا ہے



Published On 2nd October 2011
انل نریندر
منموہن سنگھ کی کیبنٹ میں اندرونی رسہ کشی اور ٹکراؤ کا الزام لگانے والی بھاجپا بھی خود ایسی صورتحال سے دوچار ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کی دو روزہ قومی ایگزیکٹو کی میٹنگ میں پارٹی صدر نتن گڈکری کی اپیل کے باوجود گجرات کے وزیر اعلی نریندر مودی سمیت کرناٹک اور اتراکھنڈ کے سابق وزراء اعلی بی ایس یدی یرپا اور رمیش پوکھریال نشنک میٹنگ میں شامل نہیں ہوئے۔ بھاجپا پردھان نتن گڈکری نے حالانکہ یہ کہا کہ پارٹی کوشش کررہی ہے کہ مودی میٹنگ میں شامل ہو جائیں۔ کچھ ہی لوگ شاید اس دلیل کو مانیں گے کے مودی نوراتری کا برت رکھ رہے ہیں اس لئے وہ میٹنگ میں نہیں آ پائے۔ اصلی وجہ کچھ وار ہی ہے8 ستمبر کو پارٹی کے سینئر لیڈر لال کرشن اڈوانی نے اچانک مل گیر رتھ یاترا کرنے کا اعلان کردیا۔ اس سے بھاجپا لیڈر شپ بھی حیران رہ گئی۔ اس اعلان کے ساتھ ہی چترماس لگنے لگے کے اڈوانی کی اس رتھ یاترا کا مطلب ایک بار پھر پی ایم ان ویٹنگ کا پیغام دینا ہے۔ آر ایس ایس نے 2009ء کے چناؤ میں ہار کے بعد شری اڈوانی کو پیچھے کرکے نمبر دو کے لیڈروں کو آگے کرنے کی اسکیم بنائی۔ اس میں نریندر مودی سشما سوراج ، ارون جیٹلی اور خود نتن گڈکری شامل تھے۔ لیکن اڈوانی کی اچانک رتھ یاترا کے اعلان نے یہ سارے تجزیئے بگاڑ دئے۔ اڈوانی کی یاترا کا سب سے زیادہ جھٹکا گجرات کے وزیر اعلی نریندر مودی کو لگا ہے۔ طویل عرصے تک ان کی پہچان اڈوانی کے خاص سپہ سالار کی شکل میں ہورہی تھی لیکن اب مودی بڑے استاد بن گئے ہیں۔ کچھ معنوں میں وہ اپنے آپ کو پارٹی سے اوپر سمجھنے لگے ہیں۔ بھاجپا کے ذرائع کے مطابق بھاجپا میں وزیر اعظم کے عہدے کے ان دو امکانی دعویداروں مودی اور اڈوانی کے درمیان ٹکراؤ بڑھتا جارہا ہے۔ اڈوانی کی مجوزہ رتھ یاترا مودی کو راس نہیں آرہی ہے۔ اسی کے چلتے انہوں نے بھی اڈوانی کی طرز پر پچھلے دنوں احمد آباد میں ایک بڑا سیاسی شو کرڈالا تھا۔ گورنر کے خلاف حال ہی میں گجرات میں منعقدہ مودی کی ریلی میں اڈوانی سمیت کسی بڑے نیتا نے شرکت نہیں کی تھی۔ احمد آباد میں مودی اپواس کا جس طرح سے پروپگنڈہ کیا گیا اس سے پارٹی کی سینئر لیڈر شپ خوش نہیں ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ مودی خود کو بھاجپا کی طرف سے وزیر اعظم کے امیدوار کے طور پر پیش کررہے ہیں۔ ادھر آر ایس ایس نے اڈوانی پر دباؤ ڈالا کہ وہ یہ صاف کردیں کہ ان کی یاترا کا ان کی وزیر اعظم کی امیدواری سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ سنگھ کے ناگپور میں واقع ہیڈ کوارٹر میں آر ایس ایس کی لیڈر شپ سے ملاقات کے بعد مسٹر اڈوانی نے اعلان کیا تھا کہ وزیر اعظم کے عہدے کی امیدواری کو لیکر وہ یہ یاترا نہیں کررہے۔ سب سے پہلے مودی نے ہی ان کی یاترا کی مخالفت کی تھی۔ ذرائع کے مطابق جب اڈوانی نے ان سے اس یاترا کے بارے میں بات کی تو مودی نے اپنی عادت کے مطابق ان سے دو ٹوک پوچھ لیا کے اس سے کیا فائدہ؟ آپ کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں؟ اتنا ہی نہیں مودی نے گجرات میں یاترا شروع کرنے میں مدد کرنے معذوری ظاہر کردی۔ آخر کار مسٹر اڈوانی نے اپنی یاترا بہار سے شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس کے پیچھے ایک اور مقصد بھی نظر آتا ہے ۔ شاید اڈوانی جی این ڈی اے کی طرز پر سیاست کو بڑھا وا دینا چاہتے ہیں۔ پہلے بھی انہوں نے محمد علی جناح کی تعریف کرکے اسی لائن پرچلنے کی کوشش کی تھی جس پر اٹل جی چلتے تھے۔ اڈوانی جی کی کوشش ہے کہ وہ این ڈی اے کی طرز پر پھر سے مرکز میں سرکار بنائیں اور اس کی قیادت کریں۔ اس مقصد کو نہ تو آر ایس ایس حمایت کرے گا اور نہ ہی مودی جیسے تلخ لیڈر۔ جن کی پہچان ہندوتو لیڈر کی ہے۔ مسٹر اڈوانی کی مجوزہ یاترا کو لیکر جو تنازعہ کھڑا ہوا ہے یہ رکنے والا نہیں۔ بھاجپا لیڈر شپ میں اس وقت زبردست ٹکراؤ ہے اور اس رتھ یاترا نے فوکس میں لاکر کھڑا کردیا ہے۔ ادھر کانگریس لیڈر شپ میں گھماسان ہو رہا ہے۔ رہی سہی کثر بھاجپا کی اندرونی رسہ کشی نے پوری کردی ہے۔
Anil Narendra, Arun Jaitli, BJP, Daily Pratap, L K Advani, Narender Modi, Nishank, Nitin Gadkari, Sushma Swaraj, Vir Arjun, Yadyurappa

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟