سونیا کو بلا تاخیر حکومت اور پارٹی کو صحیح لائن پر لانا ہوگا



Published On 5th October 2011
انل نریندر
ایتوار کو ہر کانگریسی نے راحت کی سانس لی ہوگی جب مہاتما گاندھی اور لال بہادر شاستری کی جینتی پر تقریباً دو مہینے کے بعد محترمہ سونیا گاندھی کو دیکھا ہوگا۔ بیرون ملک میں سرجری کرانے کے بعد پہلی بار انہوں نے کسی عوامی پروگرام شرکت کی۔ خیال رہے وہ ماہ ستمبر میں ہندوستان لوٹ آئیں تھیں لیکن میڈیا کے سامنے ابھی تک مخاطب نہیں ہوئیں تھیں۔ ان کی صحت کو لیکر میڈیا میں طرح طرح کی قیاس آرائیاں لگائی جاتی رہی ہیں۔ دیکھنے میں سونیا گاندھی ٹھیک ٹھاک لگ رہی تھیں ، تھوڑی کمزور ضرور لگیں لیکن کل ملاکر پہلے کی طرح ان میں خود اعتمادی دکھائی دے رہی تھی۔ لال کرشن اڈوانی سمیت کئی لیڈروں نے ان کی صحتیابی کے بارے میں پوچھا۔ پھر سونیا پارلیمنٹ کے سینٹرل ہال میں مہاتما گاندھی اور سورگیہ وزیر اعظم لال بہادر شاستری کی تصویر پر گلہائے عقیدت پیش کرنے کے پروگرام میں انہوں نے حصہ لیا۔ قریب15 منٹ چلی اس تقریب میں کئی نیتا ان کی طبیعت معلوم کرنے کے لئے پہنچے تھے۔ اپوزیشن کی لیڈر سشما سوراج نے سونیا سے پوچھا اب آپ نے اپنی پوری ذمہ داریاں نبھانی شروع کردی ہیں؟ سونیا نے ہنستے ہوئے ان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے جواب دیا ہاں۔ کانگریس پارٹی کے ترجمان راشد علوی نے کہا محترمہ گاندھی پوری طرح سے تندرست ہیں اور 2014ء کا اگلا لوک سبھا چناؤ بھی انہی کی رہنمائی میں لڑا جائے گا۔ سونیا گاندھی نے اب پوری طرح سے فورم میں آکر پارٹی متعلق ذمہ داریوں کو نبھانا شروع کردیا ہے۔ جمعرات کو پارٹی کے دو سینئر وزراء کے درمیان پیدا تنازعے جیسے قومی مسئلے کو سلجھانے کے بعد وہ پوری طرح سے ریاستی اور علاقائی معاملوں میں سرگرم ہوگئی ہیں۔ سونیا مہاراشٹر، راجستھان، تلنگانہ کے معاملوں پر حکومت اور پارٹی کے پروگراموں سے روبرو ہوئیں۔ سب سے پہلے ان کی ملاقات مہاراشٹر کے وزیر اعلی پرتھوی راج چوہان، پارٹی کے مہاراشٹر یونٹ کے پردھان منک راؤ گاوت سے ہوئی۔ اس کے بعد سونیا نے راجستھان کے وزیر اعلی اشوک گہلوت سے بھی ملاقات کی۔ بھانوری دیوی معاملے میں اور بھرت پور دنگوں کے بارے میں کی گئی کارروائی سے وزیر اعلی سے تفصیلات حاصل کی ہیں۔
سونیا کے لئے سب سے بڑی چنوتی کانگریس میں چل رہی رسہ کشی حکومت کی گرتی ساکھ کو سنبھالنا ہوگا۔ مرکز میں اقتدار میں رہنے کے باوجود کانگریس اور حکومت ان دنوں اپنے سب سے برے دور سے گذر رہی ہے۔ مرکز کے علاوہ اس کی ریاستی حکومتیں بھی سنگین بحران سے گھری ہوئی ہیں اور سب سے افسوسناک بات یہ ہے سونیا کے علاوہ شاید ہی اور کوئی انہیں سلجھا سکے اور پارٹی کی نیا کو پار لگا سکے۔کانگریس کی125 سالہ تاریخ میں پہلی بار ہے کہ ان کے زیادہ تر نیتا تنازعوں اور کرپشن میں پھنسے ہوئے ہیں۔ مرکزی حکومت کی مقبولیت اپنے سب سے نچلے سطح پر پہنچ گئی ہے۔ ریاستوں میں بھی پارٹی کی صحت تسلی بخش نہیں ہے۔ کانگریس کا سب سے مضبوط گڑھ آندھرا پردیش ان دنوں مرکزی حکومت کی طرح سب سے بری حالت میں ہے۔ الگ تلنگانہ کی تشکیل کو لیکر اس کی مکمل اکثریت والی کرن ریڈی حکومت نے دو گروپ ہونے کے دہانے پر ہے۔ راجستھان میں اشوک گہلوت سرکار بھی برے دور سے گذر رہی ہے۔ خود وزیراعلی گہلوت اور ان کے رشتے داروں پر زمین الاٹمنٹ میں دھاندلی کے الزام لگ رہے ہیں۔ ریاست میں فرقہ وارانہ فسادات ہورہے ہیں جس کے چلتے نریندر مودی کے خلاف کانگریس کی جارحانہ دھار کچھ تیز ہورہی ہے۔ ساتھ ہی پارٹی کی سیکولر ساکھ بھی داغدار ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ بھنوری دیوی کا پتہ نہیں چل رہا ہے۔ سرکار کے سینئر وزیر مہیپال مردگنا سیدھے کٹہرے میں ہیں۔ دہلی میں شیلا دیکشت سرکار بھی مرکزی حکومت کی طرح بھاری ناراضگی سے دوچار ہے۔ کامن ویلتھ گھوٹالوں کے علاوہ مہنگائی کی مار نے دہلی کی کانگریس سرکار کو جنتا کا دشمن نمبر ون بنا دیا ہے۔ ہریانہ سرکار کے لئے اروند کیجریوال سردرد بنے ہوئے ہیں۔ انا ہزارے اپنا پہلا تجربہ حصار پارلیمانی سیٹ پر ہونے والے ضمنی چناؤ سے کررہے ہیں۔ سونیا گاندھی کے پارلیمانی حلقے پر بھی وہ سروے کرارہے ہیں۔ گووا سے بھی کان گھوٹالے کی خبروں میں دہلی میں بیٹھے آقاؤں کا درد سر بڑھا دیا ہے۔مرکز کا تو بہت برا حال ہے۔ وزیر داخلہ پی چدمبرم کے بعد خود وزیر اعظم ٹو جی گھوٹالے کی جانچ کی رپورٹ میں شامل ہیں۔ کل ملاکر سرکاراور پارٹی کے سامنے کئی چنوتیاں اور مسائل ہیں جنہیں سونیا گاندھی کو سلجھانا ہوگا۔ میڈم خود بھی ان حالات سے دکھی ہوں گی۔ بھگوان انہیں اچھی صحت بخشے اور وہ ان منہ پھاڑتی چنوتیوں کا ہمت اور حوصلے اور صبر سے مقابلہ کرسکیں۔
Anil Narendra, Congress, Daily Pratap, L K Advani, Mahatma Gandhi, Rajassthan, Sonia Gandhi, Vir Arjun

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟