امریکی صدارتی چناو ¿ اور مشرقی وسطیٰ!

امریکہ میں صدارتی چناو¿ پروسس کا آغاز ہو چکا ہے دنیا کے سب سے بڑے طاقتور دیش کے اعلیٰ ترین عہدے کے لئے دو اہم دعویدار یعنی ڈونلڈ ٹرمپ اور کملا ہیرس ہیں ۔میں اپنی پوری طاقت اس چناو¿ کو جیتنے کے لئے جھونک دی ہے ۔نتیجوں کے بعد واشنگٹن کے وائٹ ہاو¿س میں کملا کا اقتدار آئے گا یا ٹرمپ کا کارڈ چلے گا یہ تو پانچ نومبر تک ہی طے ہوگا لیکن اس چناوی ریس کے لئے امریکہ میں ارلی ووٹنگ یعنی وقت سے پہلے پولنگ کی قواعد زور شور سے جاری ہے ۔30 کروڑ میں سے قریب 3 کروڑ ووٹر اپنا ووٹ ڈال چکے ہیں ۔پچھلی بار جب ڈونلڈ ٹرمپ صدربنے تھے تو اسرائیل کے وزیراعظم نیتن یاہو اتنے خوش ہوئے کہ انہوں نے ایک علاقہ کا نام ان کے نام پر ہی رکھ دیا تھا ۔یہ علاقہ ہے ٹرمپ ہائیٹس یہ گولان ہائٹس کے یہودی علاقہ میں ہے ۔ساری دنیا خاص کر مشرقی وسطیٰ کے لوگوں کی پانچ نومبر پر نظریں ٹکی ہوئی ہیں ۔یہ چناو¿ مشرقی وسطیٰ کے لئے اہم ترین ہوگا۔سوال یہ ہے کہ ریپبلکن امیدوار ٹرمپ یا ڈومیکریٹک پارٹی کی امیدوار کملا ہیرس کا ہے ۔اس خطہ میں کیا اثر پڑے گا ؟ پچھلے سات اکتوبر سے شروع ہوئی اس جنگ کو سال سے زیادہ ہو گیا ہے اور یہ کہیں رکنے کا نام نہیں لے رہا ہے ۔امریکی صدر کی حیثیت سے ٹرمپ کو اسرائیل کی حمایت ملی تھی جبکہ انہوں نے ایران کے ساتھ نیوکلیائی سمجھوتہ منسوخ کر دیا تھا ۔ٹرمپ نے یروشلم کو اسرائیل کی راجدھانی کی شکل میں تسلیم کر لیاتھا ۔یہ دہائیوں پرانی امریکی پالیسی کے برعکس قدم تھا ۔نیتن یاہو نے ٹرمپ کو اسرائیل کا وائٹ ہاو¿س میں اب تک کا سب سے اچھا دوست کہا تھا ایک سروے کے مطابق بنیامن نیتن یاہو کے حمایتیوں میں صرف دس فیصد ہی کملا ہیرس کی جیت چاہتے ہیں ۔یروشلم کو ماننے والے یہودی بازار میں شاپنگ کررہے 24 سالہ لڑکے کا کہنا تھا کہ کملا ہیرس نے اس وقت اپنا اصلی رنگ دکھایا جب وہ ایک ریلی میں مظاہرین سے متفق نظر آئیں جس میں اسرائیل پر قتل عام کا الزام لگایا تھا۔کملا ہیرس نے کہا تھا کہ وہ مظاہرین جس کے بارے میں بات کررہے ہیں وہ سچ ہے ۔حالانکہ انہوں نے صاف کیا کہ وہ نہیں مانتی کہ اسرائیل قتل عام کرارہا ہے ۔جولائی کے مہینے میں وائٹ ہاو¿س میں نیتن یاہو سے ملاقات کے بعد کملا ہرس نے کہا تھا کہ وہ غزہ کی صورتحال کے بارے میں خاموش نہیں رہیں گی ۔انہوںنے نیتن یاہو کے سامنے حکمرانی کی انسانی ہمدردی ،انسانی درد اور درد کا احساس دلایا اور بے قصور شہریوں کی موت کے بارے میںشدید تشویش ظاہر کی تھی ۔ڈونلڈ ٹرمپ نے جنگ کے خاتمہ کو اسرائیل کی جیت کی شکل میں دیکھا ہے ۔اصلی سوال جنگ بندی کی مخالفت کا ہے ۔ٹرمپ نے مبینہ طور پر نیتن یاہو سے کہا ہے کہ آپ جو کرنا ہے کرین ۔فلسطینیوں کو کسی بھی امیدوار نے کوئی خاص امید کی راہ نہیں دکھائی ۔مغربی کنارہ کے ایک مشہور فلسطینی تجزیہ نگار مصطفیٰ برغوطی کا کہناہے کہ کل ملا کر امتحان یہ ہے کہ ان کے لئے ڈومیکریٹک پارٹی اہم ہے لیکن اگر ٹرمپ جیت جاتے ہیں تو صورتحال اور بھی خراب ہو جائے گی ۔اس میں اہم فرق یہ ہے کہ کملا ہیرس امریکی جنتا کی رائے میں تبدیلی کے تئیں زیادہ ہی سنجیدہ ہوں گی ۔اس کا مطلب ہے کہ وہ جنگ بندی کے حق میں زیادہ ہوں گی ۔غزہ جنگ میں فلسطینی ملک کی سمت میں پیش رفت کے لئے حامی عرب جیسے امریکی ساتھیوں پر دباو¿ بڑھا ہے ۔لیکن کسی بھی امیدوار نے فلسطینی ملک کے قیام کو اپنے اہم ایجنڈے میں نہیں رکھا ہے ۔اب ان کے فلسطینیوں نے اپنے ملک کے سپنے توڑ دئیے ہیں ۔ترجیح تو مشرقی وسطیٰ میں چھڑی جنگ کو روکنے کا ہے ۔اور متاثرہ لوگوں تک مدد پہنچانے کا ہوگا ۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!