آئی سی 814: قندھار اغوا

قندھار اغوا کی خوفناک واردات 24 سال پہلے ہوئی تھی لیکن ا یک بار پھریہ واقعہ سرخیوں میں آگیا ہے وجہ ہے نیٹ فلکس کی ویب سریزآئی سی 814 ،فلم میکر ا نوبھوسنہا کے ذریعے بنائی گئی ہے اس فلم ویب سریزحال ہی میں او ٹی ٹی پلیٹ فارم پر نیٹ فلکس پر ریلیز ہوئی یہ قندھار پلین ہائی جیک پر بنی ہے ۔شوشل میڈیا پر یوزرس خاص کر بھاجپا میڈیا سیل کا الزام ہے کہ انوبھوسنہا نے جان بوجھ کر حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کیا ہے ۔ان کا کہنا ہے کہ سریز کا استعمال ایک پروپیگنڈہ کے طور پر کیا گیا ہے ۔چونکہ اس سریز میں ہائی جیکرس کے نام چیف ،ڈاکٹر ، برگر بھولا اور شنکر لئے گئے ہیں۔الزام لگایا گیا ہے کہ ویب سریز میں چاروں ہائی جیکرس کے نام جان بوجھ کر بدلے گئے ہیں ۔اس تنازعہ کو زیادہ ہوا بی جے پی کے شوشل میڈیا ہیڈ امت مالویہ نے دی ہے ۔انہوں نے فلم پروڈیوسروں پر نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا کہ آئی سی 814 کے اغواکار دہشت گرد تھے انہوں نے اپنی مسلم پہچان کو چھپایا تھا ۔انوبھو سنہا نے ان کوغیر مسلم نام دے کر ان کے جرم کو چھپانے کی کوشش کی ہے اس کا نتیجہ کیا ہوگا۔ دہائیوں بعد لوگ سوچیں گے کہ آئی سی 814 کو ہندوو¿ں نے اغوا کیا تھا اس معاملے میں انوبھو سنہا نے اب تک کوئی بیان نہیں دیا ہے لیکن انہوں نے کانگریس ترجمان ڈاکٹر ارونیش کمار یادو کی ایک پوسٹ کو رپورٹ کیا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ بھارت سرکار نے خود ہائی جیکرس کے نام بتائے تھے ان کے نام کر لے کر کچھ لوگ ہنگامہ کھڑا کررہے ہیں وہ کہہ رہے ہیں ان کا اصلی نام کیوں نہیں استعمال کیا گیا ۔بھول ا ور شنکر کہہ کر بلانا ہندو مذہب کی توہین کرنے جیسا ہے سچ تو یہ ہے کہ اغواکار اسی نام سے پلین میں داخل ہوئے تھے ان کا اصلی نام اب تنازعہ کے بعد سریز کے شرو ع میں ہی دے دیا گیا ہے جو پہلی سریزکے آخر میں آتا ہے ۔پی ٹی آئی کو ویب سریز کے کاشٹنگ ڈائرکٹر مکیش چوپڑا نے بتایا کہ شو کے لئے پوری ریسرچ کی گئی تھی اغو کنندہ ایک دوسرے کو انہیں ناموں سے پکاررہے تھے ۔دراصل چھ جنوری سن 2000 کو وزارت داخلہ کے ذریعے جاری بیان کے مطابق اغواکاروں کو صحیح نام ابراہیم اتھر (بحال پور)، شاہد اختر سید (گلشن اقبال کراچی)سمیع احمد قاضی (ڈیفنس ایریا کراچی) مستری زبورابراہیم (اختر کالونی کراچی) اور شاکر (سکل سٹی ) سے تھے ۔اسی بیان میں بتایا گیا تھا کہ مسافروں کے سامنے اغواکار ایک دوسرے کو چیف ،برگر ڈاکٹر ،بھولا اور شنکر کہہ کر مخاطب کررہے تھے۔وزارت داخلہ کا یہ بیان بھارت کے وزارت خارجہ کی ویب سائٹ پر آج بھی موجود ہے ۔ہائی جیک کی واردات کے بعد خفیہ ایجنسیوںنے ممبئی سے چار چشم دید گواہوں کو گرفتار کیا تھا جن سے پتہ چلا تھا کہ اغوا کا پورا پلان پاکستان کی خفیہ ایجنسی ا ٓئی ایس آئی کی ایک کاروائی تھی جسے انتہا پسند تنظیم حرکت الانصار نے انجام دیا تھا ۔24 ستمبر 1999 کونیپال کی راجدھانی کاٹھمانڈو سے دہلی آرہی پرواز کو حرکت الانصار کے پانچ دہشت گردوں نے اغوا کر لیا تھا ۔اس دوران جہاز میں مسافر اور عملے کے ممبران کو ملا کر کل 180 لوگ سوار تھے ۔اغوا کے کچھ ہی گھنٹوں بعد د ہشت گردوں نے اس یاترا روپن کاڈمال کو مار دیا تھا ۔رات 2 بجے یہ جہاز دوبئی پہنچا جہاں شیخ نے ایندھن بھرے جانے کے عوض میں کچھ مسافروں کو رہا کرا لیا تھا۔27 مسافر رہا ہوئے تھے بعد میں یہ جہاز امرتسر ہوتے ہوئے قندھار پہونچ گیا تھا۔وہاں کیا ہوا سب کو معلوم ہے ۔واجپائی سرکار کے وزیر خارجہ جسونت سنگھ خود مولانا مسعود اظہر سید زرگر اور شیخ عمر کو لے کر قندھار گئے اور مسافروں کو چھڑوایا۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟