ریپ کے 10 میں سے 7 کیس میں نہیں ملتی ہے سزا

مغربی بنگال کے آرجیکر میڈیکل کالج ہسپتال میں ایک ٹرینی ڈاکٹر لیڈی کیساتھ آبروریزی اور ہلکے معاملے میں ایک ماہ کے اندر ترنمول کانگریس کی ممتا سرکار نیا بل لے آئیں ہیں اسمبلی میں اتفاق رائے سے اپراجیتا مہلا اور اطفال مغربی بنگال جرائم قانون ترمیم بل 2024 بھی پاس کر دیا گیا ہے ۔اس بل میں عورتوں پر ہونے والے جرائم کو لے کر آئی پی سی انصاف ایکٹ 2023 (بی این ایس ) انڈین سول سیکورٹی دفعہ 2020 اور بچوں میں جنسی جرائم سے ب چانے کے لئے بنے پاسکو قانون 2012 میں ترمیم کیا گیا ۔ریاستی سرکار کا کہنا ہے کہ مزوجہ قانون ایک تاریخی ایکٹ ہے جس سے جلد سے جلد انصاف ملے گا ۔حالانکہ قانون کے ماہرین کا کہناہے یہ جلد بازی میں لایاگیا بل ہے جس میں انصاف ہونے کے ساتھ ساتھ نا انصافی بھی ہونے کا ڈر ہے ۔بل میں ایف آئی آر کے 21 دن میں جانچ پوری کرنے ،قصوروار ثابت ہونے پر دس دن میں پھانسی دئیے جانے کی سہولت ہے ۔ابھی جانچ کی رائج وقت میعاد دو مہینے ہے ۔ممتا کے مطابق وہ چاہتی تھیں کہ مرکزی سرکار بڑا قانون لائیں جو نہیں کیا گیا ۔بھاجپا نیتا اور اپوزیشن لیڈر شوبھندو ادھیکاری نے بل میں ترمیم کی تجویز رکھی جسے قبول نہیں کیا گیا ۔ممتا نے وزیراعظم نریندر مودی ،مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ اور ان وزرائے اعلیٰ کی مذمت کی جو عورتوں کی سلامتی کے لئے مو¿ثر ڈھنگ سے قانون نافذ نہیں کر پائے ۔دیش میں بتا دیں ریپ کیخلاف سخت قانون پہلے سے ہی ہیں ۔ 2012 میں دہلی میں بھی ایک کیس سامن آیا تھا جس کے تحت ریپ کیلئے موت کی سزا تک کی سہولت تھی باوجود اس کے ریپ کے اعداد شمار میں تو کبھی کمی نہیں آئی الٹا دیش میں ریپ کے واقعات مسلسل بڑھتے گئے ہیں ۔درآصل آبروریز کے لئے موت کی سزا کی مانگ عوامی جذبات کے فوری شورش کو ٹھنڈا کرنے میں بھلے ہی معاون ہوں لیکن ماہرین قانون پہلے سے کہتے رہے ہیں کہ اس سے جرائم میں قابو پانے میں کوئی خاص مدد نہیں ملے گی ۔الٹے ڈررہتا ہے کہیں آبروریز کو مارناڈالیں کیوں کہ اسے پتہ ہوتا ہے کہ ریپ کی سزا ہو سکتی ہے ۔لیکن قتل کے بعد متاثرہ کے ذریعے پہچانے جانے کے امکان ختم ہو جاتے ہیں ۔ویسے بھی دیش میں آبروریزی کے معاملوں میں سزا ملنے کا ریکارڈ بہت خراب ہے ۔ہر کوئی ملزمان کے لئے سخت سزا کی مانگ تو کررہا ہے لیکن اکثر دیکھا گیا ہے کہ ریپ کے معاملوں میں ملزمان کو سزا ملتے ہی کافی لمبا عرصہ گزر جاتا ہے اور انصاف میں دیری کے چلتے برسوں تک مقدمہ چلتا رہتا ہے دیش میں خواتین کے خلاف جرائم کی جانچ کرنا بڑی چنوتی ہے ۔2022 میں تقریبا2لاکھ 15ہزار ریپ کے معاملوں کی جانچ پولیس کو سونپی گئی تھی ۔صرف 26 ہزار معاملوں کی ہی پولیس کی طرف سے چارج شیٹ داخل کی گئی ۔ریپ کے 10 میں سے 7 کیس میں قصوروار کو سزا مل پائی ۔دیش میں بدفعلی سے جڑے معاملوں میں قصور ثابت کرنے کی شرع کوبڑھانے کی چنوتی بنی ہوئی ہے ۔حکام کا کہنا ہے پولیسنگ کا ہر پہلو ایسے واقعات کو روکنے اور تیز جانچ کے لئے کافی اہم ہیں ۔حکام مانتے ہیں کہ لگاتار بڑھتے جرائم کے باوجود قصوروار ثابت شرح کم ہے جہاں جانچ میں دیری ضروری ثبوتوں کو اکٹھا کرنا ۔فارنسک ودیگر قانونی جانچ کے لئے ڈھانچہ بندی کو مضبوط بنانا بھی بڑا اشو ہے۔حقیقت یہ ہے صرف قانون سے ہی ان قصورواروں پر قابو نہیں پایا جاسکتا ۔سیکورٹی سسٹم میں لاپرواہی کے ذمہ دار لوگوں پر بھی لگام کسنی ضروری ہے یہ قانون سے نہیں سماجی بیداری سے زیادہ ضروری ہے اس کے لئے سماج بھی کم قصوروار نہیں ہے ۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟