ہار نہ ماننے کا جذبہ

ہندوستانی پیرا کھلاڑیوں کا غیر معمولی جذبہ پیرس پیرا اولمپکس میں بہترین کارکردگی کے طور پر سامنے آیا ہے۔ جہاں ان گیمز میں قائم نام توقعات پر پورا اترے وہیں کئی نئے باصلاحیت کھلاڑیوں نے اپنے ہی ریکارڈ توڑ کر بڑے اسٹیج پر اپنی جگہ بنائی۔ ہندوستان نے سات سونے سمیت 29 تمغے جیتے۔ ہندوستان نے 2016 کے ریو پیرالمپکس میں صرف 4 تمغے جیتے تھے۔ ٹوکیو میں 19 تمغے جیتے۔ اس بار بھی ٹوکیو پیچھے رہ گیا۔ صرف ٹریک اینڈ فیلڈ میں 17 تمغے جیتے تھے۔ اس کارکردگی نے پیرا اولمپکس میں ہندوستان کو ایک نئی طاقت بنا دیا ہے۔ اتر پردیش کی پریتی پال، جو بھارت کی 84 پارلیمانی پارٹی کا حصہ ہیں، نے ٹریک ایونٹ میں اپنا پہلا تمغہ جیتا۔ ہرویندر سنگھ نے تیر اندازی میں گولڈ میڈل حاصل کیا۔ خواتین کی اسی T35، 200 اور 200 میٹر میں پریتی پال نے کانسے کا تمغہ جیتا۔ پیرا اولمپک گیمز میں یہ ملک کی اب تک کی بہترین کارکردگی ہے۔ یہ ہر ہندوستانی کھیل کے شائقین کے لیے خوشی اور فخر کی بات ہے، لیکن ساتھ ہی اس کامیابی سے بہت سے لوگ حیران بھی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پیرا اولمپک گیمز سے چند روز قبل منعقدہ اولمپک گیمز میں ہندوستان کی کارکردگی انتہائی مایوس کن رہی تھی۔ ہندوستان نے اولمپکس میں 110 کھلاڑیوں کی ٹیم بھیجی تھی، لیکن ہندوستان صرف ایک چاندی اور 5 کانسی کے تمغے یعنی تقریباً چھ تمغے جیتنے میں کامیاب رہا۔ ایسے میں بہت سے لوگ حیران ہیں کہ ہم نے پیرالمپکس میں اولمپکس سے بہتر کارکردگی کیسے دکھائی؟ اگرچہ دونوں کھیلوں کا موازنہ نہیں کیا جا سکتا، ایک طرف اولمپکس ایک کھلاڑی کی جسمانی سطح کا امتحان ہوتا ہے تو دوسری طرف پیرا اولمپکس کھلاڑی کے عزم اور ہمت کا امتحان ہوتا ہے۔ پیرالمپکس میں اولمپکس سے زیادہ تمغے دیے جاتے ہیں اور بہت کم ممالک اس میں حصہ لیتے ہیں۔ پیرس اولمپکس میں 204 ٹیموں نے کل 32 کھیلوں میں 329 طلائی تمغوں کے لیے حصہ لیا۔ جبکہ پیرا اولمپکس میں 170 ٹیمیں 22 کھیلوں میں 549 طلائی تمغوں کے لیے مدمقابل ہیں۔ ایسے میں قدرتی طور پر پیرا اولمپکس میں تمغہ جیتنے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں اور ملک پیرالمپکس اور اولمپکس دونوں میں حصہ لیتا ہے۔ بہت سے مطالعات سے پتہ چلتا ہے کہ اولمپک کارکردگی کا براہ راست تعلق کسی ملک کی آبادی اور جی ڈی پی سے ہو سکتا ہے۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ اولمپک ٹیبل میں ٹاپ 10 ممالک نسبتاً امیر ہیں۔ پیرا اولمپکس کے معاملے میں دو چیزیں جو پیسے سے زیادہ فیصلہ کن ہوتی ہیں وہ ہیں ملک کی صحت کی سہولیات اور معذوری کے بارے میں اس کا رویہ۔ بہت سے ممالک میں معذور افراد کی تذلیل کی جاتی ہے یا ان کے ساتھ ترس کھایا جاتا ہے۔ لیکن حالیہ دنوں میں کھیلوں کے حوالے سے سماجی سطح اور رویے میں بڑی تبدیلی آئی ہے، جسمانی معذوری کا سامنا کرنے والے کھلاڑی اس سے نکل کر اپنی آزاد شناخت بنانے کے لیے تیار ہیں اور اس کے لیے وہ کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔ اگر انہیں پورا موقع دیا جائے تو وہ سچ ہو جاتے ہیں۔ جیسا کہ اس نے پیرس پیرالمپکس میں ثابت کیا ہے۔ یہ افسوسناک ہے کہ ہمارا ملک پیرا فرینڈلی نہیں ہے اور نہ ہی ہمارے پاس وہیل چیئر فرینڈلی عوامی مقامات ہیں۔ پیرا اولمپکس میں کامیابی کا سب سے اہم سبق یہ ہے کہ ہمیں ان کھلاڑیوں کی بھرپور حوصلہ افزائی اور مکمل سہولیات دینا ہوں گی۔ ہم تمام جیتنے والوں کو دل کی گہرائیوں سے مبارکباد دینا چاہیں گے۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟