نفرت کی دیوار !

عزت مآب سپریم کورٹ نے ایک بار پھر نیوز چینلوں اور سماجی اسٹیج پر بے لگام نفرت آمیز تقریروں کو لیکر اعتراض جتایا ہے ۔ میڈیا میں نفرت بھر ے پروگراموں کی بہتاط پر گہری تشویش ظاہر کرتے ہوئے زبانی تبصرہ کیا کہ دیش آخر کدھر جا رہا ہے ۔ ہیٹ اسپیچ کوکنٹرول کرنے کیلئے سخت میڈیا ریگولیشن کی ضرورت ہے ۔عدالت نے کہا کہ اس مسئلے پر مرکزی حکومت چپ کیوں ہے ؟پچھلے دو برسوں میں یہ تیسری مرتبہ ہے جب سپریم کورٹ نے سخت الفاظ میں نفرتی تقاریر پر تبصرہ کیا ہے ۔ چینلوں اور سماجی اسٹیجیز پر نفرت پھیلانے والے پروگراموں اورجا نبدارانہ نیو ز دکھانے کے ٹرینڈ پر جنتا کا فی عرصے سے اعتراض جتا رہی ہے سپریم کورٹ نے مرکزی سرکار کی عرضی پر بھی سوال کھڑا کیا اور کہا کہ یہ سب جو رہا ہے اس پر حکومت خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ جسٹس کے ایم جوسیف اور جسٹس رشی کیش رائے کی بنچ ہیٹ اسپیچ کو کنٹرول کرنے کیلئے عرضیوں پر وسماعت کررہی ہے ۔ اس میں یو پی ایس سی ،لو جہاد،اور دھرم سنسد میں مسلمانوں کے خلاف زہر اگلنے والی تقریروں و کورونا کے دوران فرقہ وارانہ نفرت پھیلانے والے بیانات کو لیکر دائر عرضیاں شامل ہیں ۔ بنچ نے کہا کہ نفرتی تقریرپر قانون کمیشن کی رپورٹ پر مرکزی حکومت اپنا رخ صاف کرے ۔اب تو اپوزیشن پارٹیاں بھی پبلک اسٹیجیز پر سیدھے سرکار کی طرف انگلی اٹھاکر کہ میڈیا کے بےجا استعمال پر سوال کھڑے کرتے ہیں۔ حالاںکہ عدالت کے تبصرے پر ایک سرکار کا رخ کچھ ضرور سخت دکھائی دیا مگر اس ٹرینڈ پر روک لگانے کی قوت ارادی نظر نہیں آئی ۔ کچھ مہینے پہلے وزارت اطلاعات نے کچھ ٹی وی چینلوں کو سخت ہدایات جاری تھی کہ وہ نیوز کی پیشکش میں وقار کا خیال رکھیں ساکھ خراب نہ کریں ۔ لیکن اس کا بھی کوئی اثر نہیں ہوا ۔تازہ بیان کے وقت سپریم کورٹ نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ انگلینڈ می ایک نیوز چینل پر بھاری جرمانہ بھی لگایا گیا تھا ۔ مگر ہمارے یہاں یہ سسٹم نہیں ہے نفرتی تقریر یا افواہ پھیلانے کے قانون میں تشریح طے کی ہے ۔ بنچ نے سرکار سے جواب کے بارے میں پوچھا اور کہا کہ سارے معاملے میں وہ خاموش تماشائی کو بنی ہوئی ہے۔ سرکار کو ایک اتھارٹی بنائی چاہئے جس کی گائڈ لائنز کی تعمیل پر عمل کیلئے پابند ہونا چاہئے ۔ ٹی وی چینلوں کے نیوز اینکر کی ذمہ داری ہے کہ وہ جیسے ہی کوئی نفرت پھیلائے تو اسے روکے لیکن ہوتا ہے اس کا الٹا ۔اگر کوئی پینلسٹ اپنی بات رکھنا چاہتا ہے تو اسے موقع ہی نہیں دیا جاتا اور اس کی آواز ناظرین کیلئے بند کر دی جاتی ہے ۔ بحث پوری طرح آزادانہ ہونا چاہئے ۔ لیکن لائن کہاں کھینچنی ہے یہ مقرر کرنا پڑے گا۔ ٹی وی کا عوام الناس پر گہرا اثر پڑتا ہے ہیٹ اسپیچ سے سماج کا تانا بانا کمزور ہوتا ہے اور نفرت کی اس دیوار پر لگام کسنی ہی چاہئے ۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟