روس اور بھارت رشتے وقت کی کسوٹی پر کھرے اترے ہیں !

ویزر اعظم نریندر مودی اور روس کے صدر ولادیمیر پوتن کے درمیان پیر کو 21ویں ہند روس سالانہ چوٹی ملاقات ہوئی دنیا بھر میں کورونا وائرس کے نئے ویریئنٹ اومیکرون کے دستک کے بعد بھی روسی صدر ولا دیمیر پوتن کا بھارت آنا اس لئے اہم ہے کیونکہ پچھلے دو برسوں میں انہوں نے صرف دو بار ہی بیرونی دورہ کیا ہے پوتن بھلے ہی کچھ گھنٹوں کے لئے بھارت آئے مگر ان کا دورہ دونوں ملکوں کے رشتوں کی مضبوطی اور مسلسل دلچسپی کو نشان دہی کرتا ہے ۔ پوتن کے دورہ بھارت ایسے وقت میں ہوا ہے جب ہند بحر الکاہل خطے میں کشیدگی بڑھی ہوئی ہے اور افغانستان میں طالبان کی واپسی کے بعد سے شک و شبہات کا ماحول بنا ہوا ہے حالانکہ ان کا یہ دورہ بہت مختصر رہا لیکن اس کی اہمیت اس لئے بڑھ جاتی ہے کہ اسی موقع پر دونوں ملکوں کے وزراءخارجہ و وزراءدفعہ سطح پر بھی بات چیت ہوئی ہے دونوں ملکوں کے درمیان یہ عزم ان قیاس آرئیوں کو بے بنیاد ثابت کرنے والا ہے کہ بھارت امریکہ کی طرف کچھ زیادہ ہی جھک رہا ہے اور اسی سلسلے میں روس کو نظر انداز کر رہا ہے چین اپنی فروغ وادی پالیسیوں کو مسلسل انظام دے رہا ہے پچھلے کچھ دہائیوں میں کئی بنیادی باتوں میں تبدیلی آئی ہے نئے تجزیہ سامنے آئے ہیں تمام تبدیلیوں کے درمیان بھارت روس کے دوستی قائم رہی ہے دونوں ملکوں نے ایک دوسرے کی مدد کی ہے ایک دوسرے کی حساسیت کا بھی خیال رکھا ہے وہیںپوتن نے بھارت کو بڑی طاقت اور وقت کی کسوٹی پر پر کھا ہے اور دوست بتایا ہے انہوں نے دہشت گردی اور نسیلی دواو¿ں کی اسمگلنگ اور منظم جرائم کو دونوں ملکوں کے لئے مشترکہ چیلینج بتایا۔ روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاب روف نے کہا کہ بھارت نے ایس 400میزائل سسٹم کی ڈیل کو پورہ کر کے امریکہ کو مضبوطی سے جواب دیا ہے وہ ایک خود مختار ملک ہے اور فیصلہ لے سکتا ہے اس کو کس سے ہتھیار خریدنے ہیں امریکہ نے سودے کو لیکر پابندی تک کی وارننگ دے دی تھی ان سب کے درمیان دونوں ملکوں کے رشتوں میں پیر کے روز ایک نیا باب جڑ گیا ہے جب دونوں دیشوں کے وزراءخارجہ اور ڈیفنس وزراءنے بات چیت شروع ہوگئی اس سے پہلے بھارت کا ایسا رشتہ امریکہ جاپان اور اسٹریلیا جیسے ملکوں کے ساتھ ہی رہا ہے حقیقت یہ ہے کھلائی سائنس کے ساتھ ہی ڈیفنس معاملوں میں بھارت اور روس کے رشتے بے حد بھروسے مند رہے ہیں اس کا ثبوت پیر کو جدید ترین اسالٹ رائفل اے کے ۔ 203کی خرید کے لئے ہوئے سمجھوتے سے بھی ملتا ہے ۔ سمجھوتے کے تحت ان رائفلوں کو اپنی فیکٹریوں میں بنانے کے لئے روسی مدد سے پروڈیکشن ہوگا بھارت نے پہلے ہی روس سے لمبی دوری کے زمین سے ہوا میں مار کرنے والے ایئر ڈیفنس سسٹم ایس 400-کی خرید کے لئے معاہدہ کیا ہے جس کی سپلائی بھی شرو ع ہو چکی ہے اس سودے نے امریکہ کو بے چین کر دیا ہے لیکن روس اور بھارت کے باہمی رشتے وقت کی کسوٹی پر کھرے اترے ہیں جس میں پوتن کا دورہ سے اور مضبوطی ملی ہے یہ صحیح ہے کہ روس کی چین سے بھی قربت ہے لیکن امید کی جاتی ہے کہ ہندوستانی قیادت روسی صدر کے ذریعے سے اسے صحیح پیغام دینے میں کامیاب ہوگا۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟