کیا آرین خان کے خلا ف ڈرگس معاملہ فرضی تھا ؟

ممبئی ہائی کورٹ نے کروز ڈرگس کیس میں کہا ہے کہ شارخ خان کے بیٹے آرین خان کے خلاف ثبو ت نہیں ملے ہیں ۔ آرین اور دو دیگر کو ضمانت دینے والے اپنے تفصیلی حکم میں کور ٹ نے کہا کہ ایسا کوئی ثبوت نہیں ملا ہے جو یہ دکھاتے ہوں کہ ملزمان نے جرم کی سازش رچی تھی ۔ جسٹس این ڈبلیو سامبرے کی ایک نفری بنچ نے 28اکتو بر کو آرین خان اور اسکے دوست ارباز مرچنٹ اور ماڈ ل ململ دھمیا کو ایک لاکھ روپے کے مچلکے پر ضمانت دی تھی ۔ ہائی کورٹ کا کہنا کہ آرین خان کے موبائل فون سے لئے گئے وہاٹس ایپ چیٹ سے پتا چلتا ہے کہ اس میں کوئی بات قابل اعتراض نہیں پائی گئی جو یہ دکھاتی ہو کہ اس نے مرچنٹ اور دھمیا کے معالے میں دیگر ملزمان نے جرم کر نے سازش رچی ہو اس میں یہ بھی کہا گیا ہے این سی بی نے آرین خان کی منظوری بیان درج کیا ہے۔ اس پر صرف جانچ کے مقصد سے غور کیا جا سکتا ہے اور اس کا استعمال یا نتیجہ نکالنے کیلئے ہتھیا ر کے طور پر نہیں کیا جا سکتا کہ ملزم نے این ڈی پی ایس ایکٹ کے تحت کوئی جرم کیا ہے۔14صفحات کے حکم میں کہا گیا ہے کہ ایسا کوئی بھی مثبت ثبو ت ریکارڈ میں نہیں ہے جو عدالت کو اس بات پر راضی کر سکے ایک رائے والے سبھی ملزم غیر قانونی کام کر نے کیلئے راضی ہوں حکم میں کہا گیا ہے کہ تینوں نے پہلے ہی 25دن قید میں کاٹ لیے ہیں اور ملزمان کی ابھی تک میڈیکل تک نہیں کرایا گیا تاکہ یہ پتا چل سکے کہ انہوںنے ڈرگس کا استعمال کیا گیا ، انہوں نے ابھی کہا تھا کہ آرین خان کے پاس کوئی قابل اعتراض چیز نہیں ملی اور اس حقیقت پر کوئی تنازعہ بھی نہیں ہے۔ مر چنٹ اور دھمیا کے پاس ناجائز ڈرگس ملی جس کی مقدار بہت کم تھی ۔ جسٹس سامبرے نے کہا کہ کورٹ کو اس حقیقت کے تئیں حساس ہو نے کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ ملزموں کے خلاف سازش کرنے کیلئے ثبوت کے طور پر کچھ میٹر تو موجودہو۔ جسٹس سامبرے نے کہا کہ اگر مقدمہ فریق کے معاملے پر غور بھی کیا جائے توبھی اس طرح کے جرم میں سزا زیادہ نہیںہے ۔ مہاراشٹر کے وزیر اور این سی پی کے لیڈر نواب ملک نے کہا کہ ممبے ہائی کورٹ کے حکم سے صاف ہے آرین خان کے خلاف معاملہ فرضی تھا تو این سی بی کے جنرل ڈائریکٹر ثمیر وانکھڑے کو معطل کر دیا جانا چاہئے ۔ نواب ملک نے یہ بھی کہ آرین کے گرفتاری پر بھی سوال کھڑا کر تا ہے ۔ انہوںنے اپنے اس سوال کو بھی دہرایا کہ آرین کا اغوا رشوت مانگنے کیلئے کیا گیا تھا لوگوں کے پیسے و اس طرح کی بربادی بند ہونی چاہئے ۔ ثمیر وانکھڑے نے کہا کہ وہ ہائی کورٹ کے حکم پر رائے زنی نہین کر سکتے کیوںکہ معاملہ زیر سماعت ہے ۔ وہ نواب ملک کے الزامات کو اہمیت دینا نہیں چاہتے ۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں یہ بھی کہا کہ صرف درخواست گزار کرور پر کیا کر رہے تھے ۔ این ڈی پی ایس کی دفعہ 29کے تحت کاروائی کر نا تسلی بخش بنیا د نہیں کہا جا سکتا ۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟