اسکن ٹچ کے بنا بھی پاسکو !

سپریم کورٹ نے پاسکو ایکٹ کو لیکر ایک اہم ترین فیصلہ دیا ہے عدالت نے کہا پاسکو ایکٹ کی دفعہ 7کے تحت متاثر ہ کے ساتھ اسکن ٹو اسکن ملا نہیں ہوا تب بھی اسے جنسی استحصال مانا جائے گا سپریم کورٹ نے بامبے ہوئی کورٹ کے اس حکم کو خارج کر دیا جس میں کہا گیا تھا اسکن ٹو اسکن ٹچ نہ ہونے کے سبب کپڑے کے اوپر سے صاف جنسی استحصال نہیں کیا جا سکتا ۔ اس فیصلے کو اٹورنی جنرل کے کے وینو گوپال ، مہاراشٹر حکومت اور نیشنل وویمن کمیشن نے سپریم کورٹ میں چیلنچ کیا تھا ۔ جسٹس یو یو للت ، جسٹس روندر بھٹ اور جسٹس بیلا ایم تریویدی نے اس معاملے میں فیصلہ سنایا جسٹس ایم ترویدی نے 38صفحات کے اس فیصلے کاپی ٹو پارٹی کو پڑھتے ہوئے کہا کہ ایسے معاملے میں جنسی تشدد کا ارادہ زیادہ معنیٰ رکھتا ہے ، بجائے اس کے اسکن ٹو اسکن ٹچ ہو ایا نہیں ۔پاسکو ایکٹ کی دفعہ سات کے تحت اسپرش کو محدود کرنا بے تکا ہے یہ اس قانون کا مقصد ضائع کر دے گا ۔ یہ بھی کہا کہ اگر بامبے ہائی کورٹ کے ذریعے دیئے گئے فیصلے کو مانا جاتا ہے تو کل کو کوئی مجرم جنسی استحصال کرتے وقت دستانے کا استعمال کرے اور اسے جرمکے لئے قصور وار نہیں ٹھہرایا جا سکے گا ۔ یہ ایک بے تکی حالت ہوگی ، در اصل بارہ سال کی لڑکی کے جنسی معاملے میں سیشن کورٹ نے 29سالہ ملزم ستیس کو پاسکو ایکٹ میں تین سال و آئی پی سی کی دفعہ 354میں ایک سال کی سزا سنائی تھی متاثر ہ کے مطابق 16دسمبر کو ستیس اسے کھانا دینے کے بہانے لے آیا تھا ۔ وہ غلط طریقے سے ہو ا تھا بتادیں کہ بچوں کے طئیں جنسی اذیت اور بچوں کی پورنو گرافی جیسے گھنوانے جرائم کو روکنے کے لئے 2012میں پاسکو ایکٹ بنایا گیا تھااس میں کم سے کم تین سال اور زیادہ سے زیادہ عمر قید تک کی سزا ہے سپریم کورٹ تک کے وکیل چراغ گپتا نے بتایا کہ پاسکو ایکٹ کے تحت بچوں سے جنسی ارادے سے گھورنا ، فحاشی میسیج بھیجنا ، فحاشی میسجیج پڑھوانا ، فحاشی لٹریچر دکھانا وغیرہ باتوں کو بھی جرم مانا گیا ہے ۔ بامبے ہائی کورٹ کی ناگ پور بنچ نے متعلقہ ایک معاملے میں حکم دیا تھا کیونکہ ملزم اور متاثرہ کے درمیان اسکین ٹو ٹچ نہیں ہوا تھا یعنی نا بالغ کے پوشیدہ حصے کو بنا کپڑے چھونا سیکسول حملہ نہیں ہے تو پاسکو ایکٹ کے تحت جنسی اذیت کا جرم نہیں بنتا اس فیصلے کی بھاری مخالفت ہوئی تھی اوراس کے خلاف سپریم کورٹ میں تین عرضاں لگا دی گئیں تھیں ۔ سپریم کورٹ نے ان پر سماعت کرتے ہوئے کہا سیکس ارادے سے کیا گیا جسمانی رابطہ پاسکو ایکٹ کے تحت جنسی ٹارچر ہی مانا جائے گا ۔ جب قانون بنانے والی آئین سازیہ نے اسے بناتے وقت اپنا صاف ارادہ ظاہر کیا ہو ا ہو تو عدالتیں اس میں گمراہ کن پوزیشن پید انہیں کر سکتی ۔ عدالت نے بڑا سوال اٹھایا کہ اگر کوئی دستانے پہن کر چھیڑ چھاڑ گمراہ اسپرستا پیدا نہیں کر سکتی ۔ عدالت نے بڑا سوال اٹھایا کہا اگر کوئی دستانے پہن کر جرم کرے تو سزا کیسے ہوگی؟بچوں کے معاملے بہت حساس نوعیت کے ہوتے ہیں اکثر وہ اپنے ساتھ ہو رہی حرکتوں کو سمجھ نہیں پاتے یا کسی کو بتا نہیں پاتے انہیں ہر حال میں جنسی مجرموں سے محفوظ رکھا جانا انتہائی ضروری ہے ۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟