خبریں صحیح ہیں تو الزام بے حد سنگین ہے!

سپریم کورٹ نے جمعرات کو کہا کہ اگر خبریں صحیح ہیں تو پیگاسس سے وابستہ جاسوسی کے الزام بے حد سنگین ہیں حالانکہ عدالت نے اس معاملے میں مرکزی حکومت اور مرکزی وزیر داخلہ کو نوٹس جاری کرنے سے انکار کر دیا موبائل فون پر صحافیوں ، سیاست دانوں اور آئینی ذمہ داران کی اسرائیلی اسپائی ویئر پیگاسس کےلئے کی گئی جاسوسی کے خلاف دائر عرضیوں پر سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس این وی رمنا اور جسٹس سوریا کانت کی بنچ نے عرضی گزاروں سے کچھ سوال بھی کئے عرضیاں وکیل منوہر لال شرما صحافی این رام ، ششی تھرور و مرنال پانڈے ایڈیٹرس گلڈ آف انڈیا نے دائر کی ہیں ان مدعالیوں کو نوٹس جاری کرنے کی درخواست کی تھی بنچ نے سبھی کو اپنی عرضیوں کی کاپیاں مرکزی سرکار پر تعمیل کرانے کی ہدایت دی ہے اور معاملے کی اگلی سماعت 10اگست طے کردی ہے بنچ نے تبصرہ کیاہے کہ الزام چونکہ مرکزی سرکار پر لگائے گئے ہیں لہذاو ہ تب تک کوئی کاروائی نہیں کر سکتی جب تک مرکزی سرکار کا کوئی نمائندہ عدالت میں موجود نہ ہو بنچ نے عرضی گزاروں کے وکیل کی دلیلوں کو ضرور سنا خاص کر دوا شو پر ایک شخصی طور سے پریشان مدعالیوں نے اس معاملے میں ایک ایف آئی آر درج نہیں کرائی دوسرا جب پیگاسس اشو 2019میں سامنے آیا تھاتب عرضی گزاروں نے اپنی عرضیاں دائر کرنے میں دیر کیوں کی؟صحافی این رام کی پیروی کر رہے سینئر وکیل کپل سبل نے بنچ کو بتایا کہ اسپائی ویئر کی بکری صرف سرکاری ایجنسیوں کو کی گئی ہے صحافی و پبلک زندگی سے جڑے لوگ ، آئینی ذمہ دار ، عدالت کے حکام اور ماہرین تعلیم سبھی کو نشانہ بنایا گیا ہے سوال سرکار سے کیا جانا چاہئے جس نے اسپائی ویئر کو خریدا وکیل کپل سبل نے کہا پیگاسس اپنے ٹارگیٹ کی جاسوسی کرتے وقت فوٹو کو بھی لے سکتا ہے اور ویڈیو بھی اگر کوئی اپنے اندرونی اور ذاتی لمحوں کو گزار رہا ہو تو وہ نگراں رکھ سکتا ہو جس کی جاسوسی کی جا رہی ہو اس کے موبائل کیمرے اور مائیک دونوں کو بھی ایکٹیو کر سکتا ہے جگدیپ کونکر کی طرف سے پیش سینئر وکیل شام دیان نے کہا کہ یہ صرف میڈیا کی خبر نہیں ہے امریکہ اور فرانس کی سرکاروں نے اسرائیلی حکوم کو چونکس کر دیا ہے او ر اس کا جواب مانگا ہے کسی شہری کو یہ پتہ چلے کہ اسپائی ویئر کا سرکار نے اس پر استعمال کیا ہے تو یہ غیر آئینی ہے یہ تو کسی سرکار کے ذریعے اپنے شہریوں پر جنگ تھوپنے جیسا ہے صحافی ایس این رام سالوی کی طرف سے سینئر وکیل راکیش دویدی نے کہا جہاں تک شکایت درج کرنے کا سوال ہے یہ ایک ہتھک عزت والا معاملہ ہے اس پر بنچ نے کہا کہ آپ سبھی عرضی گزار پڑھے لکھے لوگ ہیں ہم نہیں کہنا چاہتے کہ یہ رپورٹ بھروسے مند ہے کہ نہیں لیکن اور زیادہ ثبوت اکٹھا کرنے کے لئے سخت محنت کرنی چاہئے تھی۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟