کانگریس پس منظرکے نویں بھاجپا وزیر اعلیٰ ہیمنت بسوا!

ہیمنت بسوا سرماکے آسام کے وزیر اعلیٰ بننے کے ساتھ کانگریس سے باہر جا کر وزیر اعلیٰ بننے والے نیتاو¿ں کی تعداد میں اضافہ ہوگیا ہے اب دیش میں نو غیر کانگریسی حکمراں ریاستوں کے وزیر اعلیٰ کانگریس کے سیاسی پس منظر سے ہونگے ۔ نارتھ ایسٹ کی سات میں سے پانچ ریاستوں کے وزیر اعلیٰ کانگریسی ہوجائیں گے ۔ ابھی جن پانچ ریاستوں میں چناو¿ ہوئے ہیں ان سے تین ریاستوں کے وزراءاعلیٰ کا سفر کانگریس سے ہی شروع ہو ا تھا ۔ آسام میں بھاجپا کا چمکتا ستارہ بن چکے ہیمنت کو کانگریس چھوڑے ہوئے 6سال بھی نہیں گزرے کہ وہ ریاست کے وزیر اعلیٰ بن گئے ہیں انہوں نے 2015کے اگست میں جب کانگریس چھوڑی تھی تب پارٹی کے بڑے لیڈر کی شکل میں ابھرے تھے مگر تب نہ تو اس وقت وزیر اعلیٰ ترون گوگوئی نے انہیں کوئی اہمیت دی اور نہ ہی ہائی کمانڈ نے تب ہیمنت کانگریس چھوڑ کر بھاجپا کا دامن تھام لیااور 2016میں بھاجپا کی پردیش میں پہلی سرکار کے وزیر بنے بنگال میں ترنمول کانگریس لیڈر ممتا بنرجی مسلسل تیسری بار وزیر اعلیٰ بنی ہیں لیکن ممتا کی سیاسی پہچان بھی کانگریس سے بنی تھی ۔ بے حد نوجوان عمر میں لوگ سبھا ممبر ی سے لیکر نرسمہا راو¿ سرکار میں مرکزی وزیر رہ چکی ممتا نے 1997میں کانگریس کی اس وقت کی قیادت سے ناراض ہوکر پارٹی بنائی اور آج بنگال میں کانگریس کا صفایا ہوگیا ہے پڈوچیری میں مارچ تک اقتدار میں رہی کانگریس کو اس کی ہی ایک سابق سرکردہ این رنگا سوامی نے اقتدار سے باہر کردیا ۔ رنگا سوامی پہلے پردیش میں کانگریس سرکار کے وزیر اعلیٰ رہ چکے ہیں کچھ سال پہلے انہوں نے کانگریس چھوڑ کر این آر کانگریس بنا لی وہ چناو¿ میں این ڈی اے ساجھیدار کی شکل میں کانگریس سے اقتدار چھینا ۔ اروناچل کے وزیر اعلیٰ پیما کھنڈو 2017میں کانگریس کے 13ممبران اسمبلی کے ساتھ پالا بدلا اور بھاجپا آئے اور ریاست کے وزیر اعلیٰ بنے ہیں ۔ منی پور کے وزیر اعلیٰ این وریندر سنگھ نے 2016میں کانگریس چھوڑی تو وہ صوبے کانگریس سرکار کے وزیر تھے ایسے ناگالینڈ کے وزیر اعلیٰ مچھو ریو ایک دھائی تک ریاست میں کانگریس حکومتوں میں وزیر رہے ۔ 2002میں انہوں نے کانگریس چھوڑی اور 2003میں علاقائی پارٹی کا اتحاد بنا کر چناو¿ جیتا وزیر اعلیٰ بنے ایسے ہی کیناڈ سمھا این سی پی اتحاد سرکار کے وزیر اعلیٰ ہیں اور وہ پرانے کانگریس کے سرکردہ لیڈر پی اے سنگما کے لڑکے ہیں آندھرا میں تو 2014میں کانگریس نے اپنے پیر پر کلہاڑی مار لی اور آندھرا کے بٹوارے اور لیڈر شپ کو نظر انداز کرنے کے بعد جگن موہن ریڈی نے کانگریس چھوڑ کر وائی ایس آر کانگریس بنا لی ۔ 2019کے چناو¿میں جگن موہن ریڈی بڑی جیت کے ساتھ آندھرا کے وزیر اعلیٰ بنے اب تلنگانہ کے وزیر اعلیٰ چندر شیکھر راو¿ نے بھی سیاسی سفر کانگریس سے ہی شروع کیا تھا اب آسام کے وزیر اعلیٰ ہیمنت بسوا سرما نے ایک بار پھر کانگریس لیڈر راہل گاندھی کو خط والے ٹویٹ کی کھلی آڑائی تھی ۔ اکتوبر 2017میں راہل نے ایک ٹویٹ کیا تھا جس میں وہ پالتو ڈاگ پدی کے ساتھ تھے ۔ سرما نے ٹویٹ کیا تھا انہیں مجھ سے بہتر کون جانتا ہے مجھے یاد ہے جب ہم اہم معاملوں پر تبادلہ خیال کرنا چاہتے تھے تو آپ اسے (پدی )ڈاگ کو بسکٹ کھلانے میں مصروف تھے آج اگر کانگریس کا یہ حال ہے تو اس کی ذمہ دار خود کانگریس لیڈر شپ ہے انہوں نے قابل لیڈروں کو نظر انداز کیا بھاجپا نے اس کا فائدہ اٹھایا۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟