میڈیا کی شکایتیں بند کریں ادارے!

شپریم کورٹ نے کہا کہ عدالتی کاروائی کی رئیل ٹائم رپورٹنگ پر روک نہیں لگائی جا سکتی ہے عدالت نے کہا پریس کی آزادی کے تحت اظہار رائے کی جو آزادی ہے اس میں اوپن کورٹ کی کاروائی کو ور کرنا بھی شامل ہے ۔عدالت نے کہا مدراس ہائی کورٹ کے اس ریمارک کو ہٹانے کا معاملہ نہیں بنتا کیوں کہ چناو¿ کمیشن کے حکام کے خلاف جو رائے زنی کی گئی تھی وہ محض زبانی تھی اور آرڈر کا حصہ نہیں تھی ۔عدالت نے کہا وبا کے دوران مدراس ہائی کورٹ کا رول لائق تحسین ہے ۔لیکن ساتھ ہی سپریم کورٹ میں ہائی کورٹ کے چناو¿ کمیشن کے حکام پر قتل کا کیس چلانے سے متعلق زبانی تبصرے کو سخت بتایا اور کہا یہ نا مناسب تھا ۔اس تبصرے کے خلاف چناو¿ کمیشن نے عرضی دائر کرکے چیلنج کیا تھا جس میں مدراس ہائی کورٹ نے کہا تھا کہ قتل کا کیس چناو¿ کمیشن کے حکام پر چلنا چاہیے ۔عدالت نے کہا کہ آئینی اداروں کو کورٹ کی شکایت کرنے ک بجائے اپنا کام بہتر طریقہ سے کرنا چاہیے ۔عدالت کے جسٹس ڈی وائی چندر چور کی بنچ نے کہا آئینی فریم ورک میں چیک اور بیلنس ہوتا ہے ۔، کرنا ہم چاہتے ہیں کہ کورٹ اوپن ہوتا ہے ۔صرف ان کیمرہ کاروائی میں اوپن نہیں ہوتا ۔میڈیا کی آزادی میں کورٹ کاروائی کی رپورٹ بھی شامل ہے اس کے لئے آئین میں دفعہ 19(1)(A)- کے تحت جو آطہار رائے کا ذکر ہے اس میں کورٹ کی کاروائی کو کور کرنا بھی شامل ہے عدالت نے کہا یہ انٹر نیٹ کا دور ہے اور کورٹ کی کاروائی کی رپورٹنگ کو دبایا نہیں جا سکتا ہے سپریم کورٹ نے کہا کہ میڈیا کو اس طرح کے تبصروں کو رپورٹ کرنے سے نہیں روکا جا سکتاکیوں کہ یہ جواب دہی طرے کرتی ہے امریکی سپریم کورٹ اور یہاں تک کہ گجرات ہائی کورٹ نے لوگوں کو عدالتی کاروائی دیکھنے تک کی اجازت دی ہے ۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟