مقدموں سے نہیں دبائی جا سکتی اظہار کی آزادی!

سپریم کورٹ نے پچھلے جمعرات کو کہا کہ دیش میں کسی بھی شہری کی اظہار رائے کی آزادی کو مجرمانہ معاملے تھوپ کر دبایا نہیں سکتے یہ کہتے ہوئے بڑی عدالت نے صحافی پیٹریسیا مکھی کے خلاف ایف آئی آر منسوخ کردی دی شیلونگ ٹائمس کی مدیر اور سینئر صحافی پیٹریسیا مکھی پر فیس بک پوسٹ سے فرقہ وارانہ دنگہ بھڑکانے کا الزام ہے جسٹس ایل نگیسور راﺅ اور جسٹس ایس روندر بھٹ کی بنچ نے کہا مکھی نے اپنے سوشل میڈیا پوسٹ میںمیگھالیہ کے قبائلیوں کی سلامتی اور ان کی برابری کیلئے جو دلیل دیں ہیں اسے مستعل تقریر نہیں مانی جاسکتی اور پوسٹ کو استعال انگیزی بیان کے دائرے میں نہیں رکھا جاسکتا فیصلہ دینے والے جسٹس راو¿ نے کہا سرکار کے کام کاج نے نہ خوشی ظاہر کرنے والوں کو مختلف فرقوں کے بیچ ان نفرت کو فروغ دینے کی کوشش کی شکل میں برانڈ نہیں بنایا جاسکتا اور بھارت ایک کثیر تہذیبی سماج ہے جہاںآزادی کو وعدہ ہندوستان کی آئینی تمہید میں دیا گیا ہے اظہار رائے کی آزادی گھومنے کی آزادی بھارت میں کہیں بھی بسنے کی آزادی ہر شہری کے حقوق کو کئی تقاضوں میں بیان کیا گیا ہے عدالت نے مکھی کی میگھالیہ ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف دی گئی عرضی کی منظوری دے دی ہے جس میں ایف آئی آر منسوخ کرنے سے انکار کردیاتھا عدالت نے اپنا فیصلہ محفوظ رکھا تھا۔ مکھی کی وکیل کی دلیل تھی 3جولائی 2020کو ایک قاتلانا حملے سے وابستہ معاملے سے متعلق پوسٹ سے بے چینی یا جھگڑے کرنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا پچھلے سال 10نومبر کو میگھالیہ ہائی کورٹ کی یونی فائیڈ بنچ نے لاسو ہوتب دربار سونیا انجمن کے ذریعے ایف آئی آر منسوخ کرنے سے انکار کر دیاتھا مکھی نے باسکیٹ بال کورٹ میں پانچ لڑکوںپر حملے کے بعد قاتلانہ حملے کرنے والے حملہ آوروں کی پہچان کرنے میں ناکام رہنے کیلئے فیس بک پر یہ پوسٹ ڈالا تھا اس میں وہ قبائلی گروپ و غیر قبائلی افراد شامل تھے 11لڑکوں کو پولس نے حراست میں لیا اور دو کو گرفتار کیا کورٹ نے کہا ایسے معاملوں میں جب ریاستی انتظامیہ متاثرین کے طئیں اپنی آنکھیں بند کر لیتی ہے یا ان کی ناراضگی کی آوازوں کو دبا دیتی ہے تو یہ ناراضگی بن جاتی ہے ایسے میں یا تو انصاف نہیں ملتا یا تو پھر انصاف ملنے میں دیری ہوتی ہے اس معاملے میں ایسا ہی ظاہر ہوتا ہے۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟