دیش نے لیبر طاقت کو پہچانا !

لاک ڈاو¿ن کے بعد پیدل ہی ہزاروں کلو میٹر چل کر جانے والے مزدور سارا درد بھلا کر لوٹنے لگے ہیں جنہوں نے کام بند ہونے پر انہیں تنخواہ یا پناہ دینے سے منع کر دیا تھا اب وہی لوگ انہیں 20ہزار روپئے ایڈوانس اور ڈیڑھ گنا مزدوری کے ساتھ لوٹنے کے لئے ائیر کنڈیشن بسیں تک بھیج رہے ہیں یہ ہی نہیں کئی لیبرس کی مانگ ہے کہ انہیں رہنے کے لئے باقاعدہ ایک فلیٹ بھی دیا جائے ۔بہار کے دس اضلاع کے 61دیہات جہاں سب سے زیادہ تارکین مزدور لوٹے ہیں ان کی رپورٹ میڈیا میں چھپی ہے ۔رپورٹ کے مطابق ان میں 7اضلاع کے ریہات میں اوسطاً 50فیصد سے زیادہ لوگ لوٹے ہیں ۔کئی ایسے ہیں جنہیں گاو¿ں بھی کام نمل گیا ہے ۔اور بہت سے ایسے ہیں جو ابھی کام کی تلاش میں ہیں۔مظفر پور کے تین اور ارہریا کے دو منڈلوں میں پنجاب ہریانہ سے آئی ائیر کنڈیشن بسوں میں لیبر لوٹ چکے ہیں ۔کتنے لوگ لوٹے ہیں اس کا بھی کوئی ریکارڈ نہیں ہے لیکن گاو¿ں والے نام ضرور بتاتے ہیں کہتے ہیں بلانے والوں نے 20-20ہزار روپئے ایڈوانس دئیے کسی کو دگنی مزدوری کا لالچ ملا تو کہیں تین مہینے کا ہرجانہ جنہیں اچھا لگا وہ پچھلا سارا در بھول کر گھر سے اپنے کام کی طرف لوٹ چلے ۔زیادہ تر اضلاع میں جاب کارڈ پاکر من ریگا سے مزدوری کرنے والے کہتے ہیں 194روپئے کا کام وہ بھی روزانہ نہیں اس لئے جسے بلاوا آرہا ہے وہ نکل جارہا ہے ۔کشن گنج کے بہادر قصبے سے ملے مزدوروں نے کہا ہاتھوں میں ہنر ہے لیکن کام نہیں بہار کے تو باہر کے لوگ تو کما کر گھر بھیج دیتے تھے ابھی خود بوجھ بنے ہوئے ہیں ایسے ہی لدھیانہ سے لوٹے ایک لیبر سلجیب کا کہنا ہے کہ وہاں روز 6سو روپئے کماتا تھا لیکن یہاں یہ ممکن نہیں ہے کورونا دور میں لوٹے بہاریوں کو بہار سرکار کے پروجیکٹوں میں تو کام ملا رہاہے لیکن دوبارہ لاک ڈاو¿ن اور ہر سال آنے والے سیلاب سے بھی ڈرے ہوئے ہیں ویسے زیادہ تر لوگوں نے ایک آواز میں کہا کہ یہاں سرکار کی کوشش نظر آرہی ہے لیکن پردیش جیسی کمائی یہاں مشکل ہے ۔اب تو فیکٹری مالک اور کھیتی کرانے والے پہلے سے زیادہ پیسہ دے رہے ہیں ۔لوٹنے کا خرچ اور پچھلا بقایا بھی دراصل بغیر دیہاڑی مزدوروں کے پنجاب ہریانہ کے خوش حال کسانوں کی کھیتی خراب ہو رہی ہے وہاں مزدوروں کی قلت ہے ۔دہلی پنجاب ہریانہ گجرات اور مہاراشٹر تلنگانہ کے فیکٹری مالک اپنے پرانے تجربہ کار مزدور بہاریوں کو بلاوے پر پلاوا بھیج رہے ہیں ہر بار ان کی آفر پہلے سے زیادہ ہوتی ہے ۔یہاں کے لیبر کئی برسوں سے ان کی فیکٹریوں اور کھیتوں میں کام کر رہے ہیں انہیں کام کی ایک ایک باریکی کا پتہ ہے اس لئے لیبر کو جانے کے لئے لیبر کو آنے کے لئے بسیں بھی بھیج رہے ہیں حالانکہ کچھ ایسے بھی ہیں جنہیں ڈر ستارہا ہے کہ وہ جلد نہیں لوٹے تو پرانی نوکری سے ہاتھ دھونا پڑ سکتا ہے ۔ایسے ہی کام ملنے پر تھوڑا وقت تو لگے گا لیکن شام سندر کہتے ہیں کہ اس لاک ڈاو¿ن میں پورے دیش نے ہماری طاقت کو سمجھ لیا ہے ۔جہاں سے ہم نکل گئے ان کی ہیکڑی اتری ہوئی ہے ۔سرکار ہمارے ذریعے بہار کی چمک نکھارنے اسی کا انتظار ہے ۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟