جمہوریت میں اختلاف کی آواز نہیں دبائی جا سکتی !

سپریم کورٹ نے راجستھان کے سیاسی واقعات کے چلتے ایک اہم ترین سوال پوچھا ؟سچن پائلٹ سمیت کانگریس کے 19باغیوں کو راحت دیتے ہوئے نا اہلی سے متعلق اسمبلی اسپیکر کے نوٹس کے خلاف راجستھان ہائی کورٹ کی سماعت پر روک لگانے سے انکار کرتے ہوئے پوچھا کیا اختلاف کی آواز دبانا جمہوریت کو ختم کرنا نہیں ہے ؟جسٹس ارون مشرا ،جسٹس بی آر گوائی ،جسٹس کرشن مراری کی بنچ نے کہا کہ اسمبلی ممبران اسمبلی چنے ہوئے ہوتے ہیں کسی پارٹی کے چنے ممبر اسمبلی کیا اپنا اختلاف نہیں ظاہر کر سکتے ۔بنچ نے پوچھا پورے معاملے میں بڑا سوال یہ ہے کہ آخر جمہوریت کو کیسے کام کرنا چاہیے ؟یہ جمہوریت سے وابسطہ اہم ترین سوال ہے ۔بے حد سنجیدہ اشو ہے ہم اسے مفصل طور پر سننا چاہتے ہیں سمارعت کے دوران اسپیکر کی طرف سے سینئر وکیل ہریش سالوے پیش ہوئے اسپیکر سے بنچ کے پوچھا کہ آپ تو نیوٹرل پارٹی ہیں آپ کو سپریم کورٹ آنے کی کیا ضرورت تھی ؟ہائی کورٹ نے 29جولائی تک محفوظ رکھاتھا آپ ایک دن کا انتظار کیوں نہیں رکھ سکتے ؟کانگریس کے اندر کی اندرورنی پھوٹ کے چلتے اسمبلی اسپیکر باغی گروپ کے 19ممبران کو نا اہل قرار دینے کا نوٹس جاری کرنا۔اور اس کی مخالفت میں پائلٹ گروپ کا ہائی کورٹ جانا اور پھر عدالت کا جوں کہ توں پوزیشن برقرار رکھنے کا حکم پاس کرنا ادھر اسمبلی اسپیکر کا سپریم کورٹ جانا اور اس کے ذریعے دیگر تمام پیچیدگیوں پر غور و خوض کی کاروائی کرنے کے ساتھ ساتھ اختلاف کے حق کو ترجیح سے اٹھانا وغیرہ قدم رہے جو ایک طرف جہوریت کی موجودہ پوزیشن کو لیکر گہری تشویش میں ڈالتے ہیں اور ساتھ ہی امید جگاتے ہیں کہ سپریم کورٹ نے جمہوریت کے جس اختلاف کے جس حق کی بات کہی ہے وہ ایک اہم ترین آئینی حق ہے ۔ایک صحت مندجمہوریت کے لئے اس کا حق تھا جس کا ضمیر کے لحاظ سے استعمال ہونا بے حد ضروری ہے ۔لیکن بدقسمتی سے اقتدار کی موجودہ سیاست کی جو پوزیشن ہے وہ پوری طرح سے اس حق کے خلاف ہے دیش کی سیاست چلانے والے سبھی لوگوں کو اس پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے کیونکہ دیکھاجائے تو ہماری جمہوریت کا مستقبل اسی پر ٹکا ہوا ہے ۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟