وادی کشمیر میں سیب تاجرٹرک ڈرائیور دہشتگردوں کے نشانے پر

جموں و کشمیر میں دہشتگردوں میں پچھلے پندرہ دن میں چھ ٹرک ڈرائیوروں کو موت کی سلا دیا دو سیب کے غیر ریاستی تاجروں اور دو غیر ریاستی مزدوروں کو بھی قتل کر دیا ۔اس عرصے میں دس قتل نے سیکورٹی فورسیز کی ان دعوں کی دھجیاں ضرور اڑا دی ہیں جو غیر ریاستی مزدوروں و تاجروں اور ٹرک ڈرائیوروں کو پوری سیکورٹی دینے کا دعوی کر رہی تھی ۔حالانکہ اب ان قتل کے لئے سیکورٹی فورس کمونی کیشن ذرائع کی دستیابی یعنی فون اور موبائل سیوا پر ہٹائی کو پابندی کو ذمہ دار ٹھہرا رہے تھے کہ آتنکی ایک دوسرے سے رابطہ قائم کرنے میں کامیاب رہے اور وہ ایسے واقعات کو انجام دینے لگے ہیں ۔جو دہشت پھیلا رہے ہیں ۔سیکورٹی حکام جب ایسے الزام تراشی کرتے ہیں تو وہ ان آتنکی حملوں ،قتلوں کو بھول جاتے ہیں جو کمونی کیشن ذرائع پر روک لگائے جانے کی میعاد میں بھی ہوئی تھی ،دراصل ان قتل کے واقعات نے سیکورٹی نظام کی ایک طرح سے پول کھول دی ہے ۔5اگست کو ریاست کے ٹکڑے کرنے اس کی پہچان ختم کئے جانے کی کوشش کے بعد کشمیر میں لاک ڈاﺅن کی خاطر غیر سرکاری طور پر دو لاکھ کے قریب سیکورٹی جوان تعینات کئے گئے تھے ایسے میں ریاست سے باہر آئے ایک ٹرک ڈرائیور کا سوال تھا کہ چپے چپے پر سیکورٹی جوان تعینات کرنے کے بعد بھی آتنکی حملہ کرنے میں کامیاب ہیں تو سیکورٹی فورس کی غیر موجودگی میں کیا ہوگا ۔آتنکی سرح پار سے ملی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے سیب کی فصل کو کشمیر سے باہر نہیں دینا چاہتے وہ جانتے ہیں کہ ایسا کرنے سے کشمیر کی معیشت پوری طرح سے لڑ کھڑاجائے گی جو پہلے 85دنوں میں لاک ڈاﺅن اور کمیو نی کیشن کی وجہ سے دس ہزار کروڑ روپے کا نقصان برداشت کرنے کو مجبور ہوئی ہے ۔اور معیشت کو نست و نابود کر وہ کشمیریوں کو بھارت کے خلاف بھڑکانہ چاہتے ہیں ۔جب کشمیریوں پر ان کی دھمکیاں اور وارنگ بے اثر ہوئی تو انہوںنے غیر ریاستی شہریوں اور ٹرک ڈرائیوروں کو نشانہ بنانا شروع کر دیا جو معیشت کو بنائے رکھنے میں ساجھے دار ہیں ۔نتیجہ سامنے تھا پندرہ دن میں چھ ٹرک ڈرائیوروں کا قتل اور سیب تاجروں پرحملے ہوئے اور اس کے باوجود بھی تابر توڑ حملے جاری ہیں ۔سیکورٹی نظام چست کرنے کا دعوی کرتے رہے ہمارے حکام ۔لیکن وہ محض کاغذی ثابت ہو رہے ہیں ۔حالانکہ پولس کہتی ہے کہ ٹرک ڈرائیوروں کی حفاظت کے لئے نئی حکمت عملی تیار کی گئی ہے ۔اور انہیں محفوظ مقامات پر رہنے کے لے کہا گیا ہے لیکن ملنے والی اطلاعات بتاتی ہیں کہ آتنکی آنے والے چند دنوں میں مزید حملوں کو انجام دے کر غیر ریاستی شہریوں کو کشمیر آنے سے پوری طرح روک سکتے ہیں ۔اگر یہ خبریں صحیح ہیں تو جموں وکشمیر انتظامیہ کو ریاست میں غیر کشمیری مزدوروں اور تاجروں اور سیاحوں کی آمد کو بر قرار رکھنے کے لے ان کی حفاظت کے لئے باقاعدہ حکمت عملی اپنانی ہوگی ۔تاکہ وہ ریاست میں اپنے آپ کو محفوظ سمجھ سکیں ۔

(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟