پولس بنام وکیل ٹکراﺅ انتہائی افسوسناک!

دہلی کی تیس ہزاری عدالت کمپلیکس میں پارکنگ کو لے کر ایک وکیل اور کچھ پولس والوں کے درمیان ہوئے جھگڑے نے خطرناک شکل اختیار کر لی ہے وہ بے حد باعث تشویش اور انتہائی افسوسناک ہے ،جن وکیلوں پر قانون کا بچاﺅ کرنے کی ذمہ داری ہوتی ہے انہوںنے جس طرح سے قانون کو اپنے ہاتھ میں لے کر حوالات کا دروازہ توڑ کر پولس ملازمین پر حملہ کیا اور گاڑیوں کو توڑ پھوڑ اور جلایا ان کے اس عمل کو جائز نہیں مانا جا سکتا تو دوسری طرف پولس ملازم جس طرح سے ہزاروں کی تعداد میں پولس ہیڈ کوارٹرکے باہر دھرنے پر بیٹھے وہ بھی نا قابل فراموش قدم تھا ،اس طریقہ سے دھرنے پر بیٹھنا شاید پولس کی تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے قانون کی حکمرانی کے لئے یہ اچھا نہیں ہوا کہ دیش کی راجدھانی میں وکیلوں اور پولس کے درمیان اس طرح کا ٹکراﺅ ہو اور قانون کے محافظ اور قانون کی تشریح کر نے والے ہی اگر آپس میں اس ڈھنگ سے مار پیٹ کرنے لگیں تو عام آدمی کے لئے قانو ن کے راج کی پوزیشن کیا ہوگی ؟وکیل کو قانون کا دانشور طبقہ مانا جاتا ہے جس طرح سے وکیلوں نے تشدد اور بد امنی کا مظاہرہ کیا پولس والوں کو پیٹا سرکاری املاک کو نقصان پہچانے کا جو منظر پیش کیا اس میں کہیں بھی نہیں لگ رہا تھا کہ بھارت کا ایک ذی شعور اور با اثر طبقہ ہمارے سامنے ہے ،اور پولس کی غلطی بھی تھی تو اس کا بھی ازالہ نہیں ہو سکتا دوسری طرف پولس کا کہنا ہے کہ اس نے خود کا بچاﺅ کرنے کے لے فائرنگ کی تھی جس میں کچھ وکیل زخمی ہوئے ہیں اس کا نوٹس خود ہائی کورٹ نے لیا ،سوال یہ ہے کہ جب دونوں فریقین نے ایک دوسرے کے خلاف ایف آئی آر درج کرا دی تھی تو عزت مآب ہائی کورٹ کا صرف ملازمین کے خلاف کارروائی کا حکم دینا سمجھ سے باہر ہے اس واقعہ کے احتجاج میں ہائی کورٹ کی ہدایت کے بعد بھی وکیلوں نے دہلی کی عدالتوں میں کام کاج کا بائکاٹ کیا ،ساکیت کورٹ کے باہر ایک موٹر سائکل سوار پولس والے کو پیٹا اس سے بھی لگتا ہے کہ وکیلوں اور پولس کے درمیان یہ تلخی کسی چنگاری کا اشارہ تھی ،حالانکہ بار کونسل آف انڈیا کے چیرمین نے وکیلوں کی انجمنوں کے نام خط جاری کر غنڈہ گردی کرنے والے وکیلوں کی شناخت کرنے کی درخواست کی ہے ،اور دہلی پولس کمشنر نے اپنے پولس ملازمین سے ہڑتال ختم کرنے کی اپیل کو مانا اور ہڑتال ختم کر دی ،بھارت میں بہت سے ایسے موقع آئے ہیں جب پولس اور وکیلوں میں ٹکراﺅ ہوئے ہیں اور بد قسمتی سے ہر بار ان واردات کے لئے پولس والے ہی قصوروار ٹھہرائے گئے انہیں سزا بھی بھگتنی پڑی چاہے وہ معطلی یا برخاستگی کی شکل میں ہو ۔لیکن کسی بھی وکیل کو ان کے عمل کی سزاہوئی ہو تو شاید ہی اس کی مثال ملے ذرا سوچیئے ایک بدمعاش اس طرح پولس کو پٹتا دیکھے گا تو اس پر کیا اثر پڑے گا بلکہ پولس کا رعب بھی اس کے دماغ سے نکل جائے گا ؟اگر کل کو جرائم پیشہ یا شرپسند عناصر کا گروپ پولس ٹیم پر حملہ کرنے لگے تو قانون کا نظام کی کیا پوزیشن ہوگی ؟بے شک پولس کا برتاﺅ کبھی کبھی صحیح نہیں ہوتا لیکن سوچیئے اگر پولس حفاظت نہ کرئے تو جنتا کا کیا ہوگا؟پورے شہر میں بد امنی پھیل جائے گی ،لیکن ہمارا خیال ہے کہ اس بار وکیلوں کی طرف سے پہل ہوئی آپ طاقت کی بنیاد پر پولس والے کو پیٹنے لگ جائے یہ کون سا برتاﺅ ہے ؟پولس کا سڑکوں پر اترنا اچھی بات نہیں اگر پولس کو ہی تحریک چلانی پڑے تو قانو ن و نظام کی حفاظت کون کرئے گا ؟دہلی پولس کمشنر کی اپیل پر بے شک پولس والے کام پر آگئے ہیں لیکن اس واقعہ نے ٹکراﺅ جیسا موڑ لے لیا ہے اس میں اتنا ہی کافی نہیں ہوگا کہ حقیقت میں وقت رہتے ذرا سی سمجھداری دکھائی گئی ہوتی تو یہ ٹکراﺅ اتنا خطرناک موڑ نہ لیتا ،اگر وکیلوں نے جہاں اسے ساکھ کا سوال بنا لیا ہے تو پولس بھی اپنے عزت سے جوڑ کر دیکھ رہی ہے ،اس سے تو اس بات کی ضرورت ہے کہ وزیر داخلہ سارے معاملے میں براہ راست مداخلت کریں اور دونوں فریقین میں سمجھوتہ کرایا جانا چاہیے ،یہ کام اب کسی اور کے بس میں نہیں ہے ۔وکیلوں او ر پولس کی دلیل آمیز مطالبات پر سنجیدگی سے غو رکرنا ہوگا ،دیش کی راجدھانی میں یہ واقعہ ساری دنیا نے دیکھا اور دیکھ رہی ہے ،یہ نہ تو ہمارے قانون نظم کے لئے ٹھیک ہے اور نہ ہی دنیا کے سامنے کوئی اچھی تصویر پیش کر رہی ہے ،ہمارا یہ بھی خیال ہے کہ وکیل برادری اپنی ذمہ داری کو سمجھیں اور کسی بھی صورت میں ان کاایسا برتاﺅ قبول نہیں ہو سکتا ،صاف ہے کہ قانون بغیر کسی خوف کے اپنا کام کرئے تو ہی دیش ،دنیا میں صحیح پیغام جائے گا۔

(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟