ججوں میں ایمانداری کی بہترین خوبی ہونی چاہیے

سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ عدلیہ ایمانداری کی بنیاد پر بنا ادارہ ہے ساتھ ہی عدلیہ نے صحیح کہا کہ اگر یہ ضروری ہے کہ عدلیہ حکام میں ایمانداری کی بہترین خوبی ہو تاکہ وہ عوام کی خدمت کر سکیں مہاراشٹر کے جوڈشیل افسر کے تئیں نرمی برتنے سے انکار کرتے ہوئے ہائی کورٹ نے یہ رائے زنی کی کہ افسر نے 2004میں نوکری سے برخواستگی کو چیلنج کیا تھا کہ ان پر خاتون وکیل کے موکلوں کے حق میں حکم پاس کرنے کے الزام تھے جس کے ساتھ ان کے نزدیکی رشتہ تھے بڑی عدالت نے کہا کہ کسی بھی جج کو ذاتی اور عام زندگی میں بے داغ ایمانداری چھلکنی چاہیے عدالت نے کہا کہ جوڈشیل حکام کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ وہ اعلیٰ عہدے پر فائز ہیں اور عوام کی سیوا کرتے ہیں ۔جسٹس دیپک گپتا اور جسٹس بوس کی بنچ نے کہا کہ عرضی گزار ایمانداری کا رویہ اور شفافیت کی امیدوں پر کھرا نہیں اُترے اور ان کے تیں نرمی نہیں برتی جا سکتی ہے ۔اس لئے اپیل میں کوئی دم نہیں ہے۔اسے خارج کیا جاتا ہے عرضی گزار کو مارچ1985میں جوڈشیل مجسٹریٹ مقرر کیا گیا تھا فروری 2001میں انہیں معطل کر دیا گیا تھا ۔اور جنوری 2004میں انہیں برخواست کر دیا گیا ۔ممبئی ہائی کورٹ نے برخواستگی کو چنوتی دی لیکن ان کی عرضی خارج کر دی گئی اس کے بعد انہوں نے سپریم کورٹ میں دستک دی جس میں ان کی عرضی پر سزا کے محدود سوال تک ہی نوٹ جاری کیا ۔بنچ نے کہا کہ اس معاملے میں افسر نے معاملوں پر وکیل کے ساتھ قریبی رشتہ بنانے کی وجہ سے فیصلے دئے نہ ہی قانون کے مطابق یہ بھی ایک الگ طرح کی رشوت ہے ۔بنچ نے کہا کہ رشوت مختلف طرح کی ہو سکتی ہے پیسے کی رشوت اقتدار کی رشوت واسنا کی رشوت وغیرہ وغیرہ بنچ نے کہا کہ کسی بھی عدالت میں سب سے بڑی خوبی ایمانداری کی ہوتی ہے عوامی خادم ہونے کے ناطے عدلیہ حکام کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ وہ جنتا کی سیوا کےلئے ہے ۔بنچ نے کہا کہ عدلیہ میں ایمانداری ضروری ہے اور دیگر اداروں کے مقابلے میں یہاں بہت زیادہ ہے عدلیہ ایک ایسا ادارہ ہے جس کی بنیاد ایماندای پر مبنی ہے اس لئے یہ ضروری ہے کہ عدلیہ حکام میں ایمانداری کے بہترین خوبی ہونی چاہیے ہم بصد احترام سپریم کورٹ کے اس فیصلے اور نصیحت کا خیر مقدم کرتے ہیں عدلیہ جمہوریت کے چار ستون میں سے ایک ہے یہاں کسی طرح کی رشوت یا لالچ وغیرہ کی کوئی گنجائش نہیں ہونی چاہیے امید کرتے ہیں کہ اس کی سختی سے تعمیل ہوگی ۔

(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟