بیانوں سے چوکے ،چھکے لگانے والے نو جوت سنگھ سدھو

کرکٹ کی پچ ہو یا سیاسی میدان نو جوت سنگھ سدھو ہمیشہ تنازعات میں رہتے ہیں بات1996کی ہے جب انگلینڈ میں جاری سریز کے دوران کیپٹن محمد اظہر الدین سے اختلاف ہونے کے سبب کرکٹر نوجوت سنگھ سدھو دورے کو بیچ میں چھوڑ کر وطن واپس آگئے تھے 23سال بعد کردار ضرور بدل گئے ہیں لیکن سدھو کا مزاج آج بھی وہی ہے ایک بار پھر ان کی اپنے کپتان(امریندر سنگھ) سے نہیں بن رہی ہے ۔اس بار پنجاب کے وزیر اعلیٰ کیپٹن امریندر سنگھ ان کے نشانے پر ہیں ۔بیشک سدھو کی زبان ہی مضبوطی ہے ۔جیسا کہ ہم نے 2019لوک سبھا چناﺅ کمپین میں دیکھا لیکن اکثر وہ جھنجھلاہٹ میں آکر اکثر وہ کئی باتیں کر جاتے ہیں جس سے پارٹی کو فائدہ ہونے کے بجائے نقصان ہو جاتا ہے ۔نوجو ت سنگھ سدھو ایک ایسا نام ہے جو کرکٹ کی دنیا میں مقبولیت حاصل کرنے کے بعد ٹی وی کی گلیمر بھر ی دنیا میں خوب چمکے بھاجپا کا ساتھ چھوڑ کر کانگریس کا ہاتھ تھامنے والے سدھو اس وقت پنجاب کیبنیٹ میں وزیر ہیں ۔مگر اب ایسا تذکرہ ہے کہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ سے چل رہے ٹکراﺅ اور لوک سبھا کے سیاسی میدان میں انہیں یا ان کی پارٹی کو اتارنے کا موقعہ نا دئے جانے کا ملال ا نہیں ہے ۔سدھو کے متنازع بیان اور کئی قدم ان کی ہی پارٹی کانگریس کے لئے مصیبت کھڑی کرتے رہے ہیں ۔پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان کی حلف برداری میں جانے کے بعد وہ اپوزیشن کے نشانے پر آگئے تھے ۔یہی نہیں وہ وہاں پاکستانی فوج کے سربراہ باجوا کو گلے لگانا خود ان کی ہی پارٹی کے وزیر اعلیٰ کو بھی راس نہیں آیا اور وزیر اعلیٰ کیپٹن امریندر سنگھ نے کھل کر اس کی مخالفت کی اور کانگریس کی زیادہ تر وزیر ان کے خلاف ہو گئے تھے اور معاملہ راہل گاندھی کے دھیان میں لایا گیا اور معاملے میں کارروائی ہونے کا امکا ن ہے ممکن ہے یہ ایکشن عام چناﺅ کے نتیجوں کے بعد دیا جا سکتا ہے ۔پیر کو کیبنٹ ویز سکھ جیندر سنگھ رندھاوا اور ترپتی راجیندر سنگھ باجوا وغیرہ نے سدھو کی بیان بازی کو بے تکی اور نامناسب قرار دیا وہیں سدھو کا کہنا ہے کہ انہوںنے جب کچھ کہا وہ ضمیر کی آواز پر کہا گرو گرنتھ صاحب کی بے ادبی پنجاب کی آتما پر چوٹ ہے اس سے ساری سکھ قوم دکھی ہے سدھو اور ان کی بیوی دونوں کو لگتا ہے کہ کیپٹن امریندر سنگھ کی مرضی سے جان بوجھ کر ان کا ٹکٹ کاٹا گیا اور پھر اسے ان دونوںنے خود کی ساکھ کا سوال بنا لیا ہے سدھو بھلے ہی یہ کہہ رہے ہوں کہ وہ 2015میں پوتر گرنتھ کی بے ادبی کرنے والوں پر کارروائی کی مانگ کر رہے ہیں لیکن جب انہوںنے اپنی پارٹی کے کچھ نیتاﺅں پر سابق وزیر اعلیٰ پرکاش سنگھ بادل کے خاندان اور اکالی دل چناﺅ میں فائدہ پہنچانے کاالزام لگایا تو ان کے مفادات ایک دم صاف تھے سدھو سیاسی طور سے کافی توقعاتی ہیں ۔یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں اور کچھ غلط بھی نہیں لیکن اس طرح اس وزیر اعلیٰ پر آل فال الزام لگانا غلط ہے جس نے دیش میں کانگریس کو اتنی شاندار جیت دلائی ۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟