مودی سرکار کو روکنے کےلئے گٹھ بندھن حکومت کی کوشش

بےشک تمام ایگزیٹ پول بھاجپا کو واضح اکثریت کی طرف اشارہ کر رہے ہیں لیکن اپوزیشن پارٹیوں کو ابھی بھی یقین ہے کہ معلق پارلیمنٹ آنے کا امکان ہے ۔عام چناﺅ کے نتیجوں سے ٹھیک پہلے اپوزیشن خیمے میں ہلچل تیز ہو گئی ہے پورے مہا سمر میں موٹے طور پر غائب رہیں یو پی اے کی چیر پرسن سونیا گاندھی سیاسی طور سے آخری وقت میں سرگرم ہو گئی ہیں۔وزیر اعظم نریندر مودی بھاجپا صدر امت شاہ کی جوڑی سے نمٹنے اور جوڑ توڑ کے لئیے وہ اپوزیشن کے تمام لیڈروں سے بات چیت کر رہی ہیں ۔سونیا گاندھی کی اس مورچہ بندی میں ان کے اہم ساتھی ڈی ایم کے کے سروے سروا ایف ایم کے اسٹالئن ،کانگریس کے ساتھی سرکردہ لیڈر شردپوار ،مدھیہ پردیش کے وزیر اعلیٰ کملناتھ ہیں ۔یو پی اے چیر پرسن کی نگاہیں اس کے علاوہ بہا رکے وزیر اعلیٰ و جے ڈی یو صدر نتیش کمار کے ساتھ لوک جن شکتی پارٹی کے رام ولاس پاسوان کو بھی این ڈی اے سے توڑنے پر ٹکی ہیں ۔در اصل اپوزیشن خیمہ کسی بھی حالت میں بی جے پی یا این ڈی اے کی سرکار بننے نہیں دینا چاہتی ہے یہی وجہ ہے کہ جمعرات 16مئی 2019کو کانگریس نے ایک بڑی قربانی کرنے کا اشارہ دیتے ہوئے پارٹی کے سینر لیڈر غلام نبی آزاد نے پریس کانفرنس کر صاف کیا کہ اگر کانگریس کو پی ایم کا عہدہ نہیں ملتا تو اس بات سے اسے کوئی پریشانی نہیں ہوگی ۔آخری مرحلے کی ووٹنگ سے پہلے سونیا گاندھی اپوزیشن پارٹیوں کو متحد کرنے میں لگ گئیں تھیں سونیا گاندھی نے اپوزیش پارٹیوں کے چیف لیڈروں کو فون کر کے 22,23اور24مئی کو آپ دہلی میں رہیں ؟اس کا مطلب صاف ہے کہ سونیا گاندھی نے اپوزیشن کے لیڈروں کی میٹنگ کے لئے خو داپنے اوپر ذمہ داری لیتے ہوئے کوشش تیز کر دی ہے ۔دراصل کانگریس اپوزیشن پارٹیوں کی میٹنگ بلاتی ہے ایسے میں سندیش دینے کی کوشش رہے گی بھلے ہی ہم سب پریپول اتحاد کا حصہ نہ بنے ہوں لیکن ہم سب مودی کے خلاف لڑیں اور متحد ہیں ۔سونیا نے کسی بھی پارٹی کو اکثریت میں ملنے کی صورت میں کانگریس نے اتحادی حکومت بنانے کا جو ماسٹر پلان تیار کیا ہے اگر بھاجپا و اتحادی پارٹیاں اکثریت کے قریب نہیں پہنچتی ہیں تو غیر بھاجپا غیر کانگریس پارٹیوں کو بھاجپا کے پالے میں جانے سے روکنے کے ساتھ ہی انہیں کانگریس کی طرف لایا جانا ہے ۔نئی حکمت عملی کے تحت مرکز میں مودی کو روکنے کے لئے کانگریس نے سیکولر طاقتوں کی گگلی پھینکے جانے اور اس کے ذریعہ جہاں ایسی پارٹیوں کو بھاجپا کے پالے میں جانے سے روکنا ہے جو کہ ابھی نہ یو پی اے کا حصہ ہے اور نہ ہی این ڈی کا وہیں یکساں نظریات کے نام پر انہیں سیکولر مورچے کے تحت ایک جھنڈے کے نیچے لانے کی کوشش ہے ۔یہ کوشش تبھی کامیاب ہو سکتی ہے جب بھاجپا اور ان کے پریپول پارٹنر واضح حکومت سے دور رہیں ۔کم سے کم ایگزیٹ پولز سے تو یہ نہیں لگتا کہ ایسا ہوگا دیکھیں آج 23مئی کو کیا نتیجہ نکلتا ہے ۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟