مورتیوں پر عدالتی ریمارکس سے مایاوتی کی مشکلیں بڑھیں

لوک سبھا چناﺅ سے ٹھیک پہلے سپریم کورٹ کے ذریعہ بہوجن سماج پارٹی (بسپا )سرکار میں بنی یادگاروں میں لگی مورتیوں پر ہوئے خرچ کو سرکاری خزانے میں جمع کرانے کے ریمارکس نے بسپا صدر مایاوتی کے پی ایم بننے کے خواب پر مشکلیں کھڑی ہو گئی ہیں بسپا حکومت میں لکھنﺅ ،نوئیڈا،گریٹر نوئیڈا میں بنے اسمارکوں میں مایا وتی ،ڈاکٹر امبیڈکر ،کاشی رام،اور بسپا کے چناﺅ نشان سے ملتی بڑی تعداد میں مورتیاں لگائی گئی ہیں ۔ان مورتیوں لگانے پر 5919کروڑ روپئے خرچ ہوئے تھے سپریم کورٹ اس اشو پر 2009میں ایک شخص روی کانت کی دائر کردہ عرضی پر سماعت کر رہا تھا جمع کو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس رنجن گگوئی ،جسٹس دیپک گپتا،اور جسٹس کھنہ نے سماعت کے دوران کہا کہ ہمارا یسا نظریہ ہے کہ مایا وتی کو اپنی اور اپنی پارٹی کے چناﺅ نشان کی مورتیاں بنوانے پر خرچ ہوا سرکاری پیسہ سرکاری خزانے میں واپس جمع کرانا ہوگا اتنا ہی نہیں جج صاحبان نے مایاوتی کے وکیل ستیش چندر مشرا کے ذریعہ معاملے کی اگلی سماعت 2019کے بعد کرنے کی درخواست کو خارج کر دیا اور کہا کہ وہ اگلی سماعت 2اپریل کو ہوگی ۔سپریم کورٹ نے ستیش مشرا کو کہا کہ آپ اپنی کلائنٹ کو بتا دیں کہ انہیں مورتیوں پر خرچ پیسے کو پردیش کے سرکاری خزانے میں واپس کر کے جمع کرانا چاہیے ۔چیف جسٹس رنجن گگوئی نے مشرا سے کہا کہ ہمار اپہلا نظریہ ہے کہ میڈم مایا وتی کو مورتیوں کا سارا پیسہ اپنی جیب سے ادا کرنا چاہیے ۔ہمیں کچھ اور کہنے کے لئے مجبور نہ کریں ۔بڑی عدات کا یہ ریمارکس تمام سیاسی پارٹیوں کے لئے سبق بن سکتا ہے ۔آخر ہر سرکار اپنی پارٹی کے ہیرو اور نیتاﺅں اور ان کی مورتیاں لگانے کی دوڑ میں رہتی ہیں ۔اس سے کوئی پارٹی چھوٹی نہیں ہے ۔اپنی سرکار میں اپنے حساب سے مورتیاں لگوانے کا سلسلہ بہرحال کوئی نئی بات نہیں ہے ۔بلکہ آزادی کے بعد سے ہی یہ سلسلہ شروع ہو گیا تھا ۔اس دور میں گاندھی جی کی مورتیاں زیادہ لگائی گئیں تھیں ۔بد قسمتی یہ بھی ہے کہ ہر سرکار زور شور سے یہ کام کرتی ہے لیکن جب وہ اپوزیشن میں ہوتی ہے تو س کام کی مخالفت کرتی ہے ۔بتا دیں کہ وزیر اعلیٰ مایاوتی کے بنوائے اسمارکوں میں لگی مورتیوں ہاتھیوں اور پارکوں کی مرمت پر ہی پچھلے پانچ برسوں میں تیس کروڑ روپئے خرچ ہوئے ہیں ۔سپا حکومت میں جہاں اسمارکوں و مورتیاں بد حالی میں تھیں وہیں 2007میں بھاجپا سرکار بننے کے بعد ان کے رکھ رکھاﺅ کا کام شروع ہوا اسمارکوں کی دیکھ ریکھ کے لئے سابق وزیر اعلیٰ مایاوتی نے قریب سو کروڑ روپئے کا الگ فنڈ بنایا تھا ۔اسکے سود سے اسمارکوں کی دیکھ بھال کئے جانے کی سہولت تھی لیکن سال 2012میں اکھلیش یادو کے وزیر اعلیٰ بننے کے بعد اسمارکوں کی رکھ رکھاﺅ کا بجٹ روک دیا گیا تھا ۔ہمار خیال ہے کہ عام شہریوں کا پیسہ ترقیاتی کاموں کے علاوہ اور کہیں خرچ نہیں ہونا چاہیے ۔اگر وہ خرچ ہوتا ہے تو یہ ایک اخلاقی جرم ہے اپنے دیش کا عام آدمی اچھی حالت میں نہیں ہے ،سڑک ،بجلی ،پانی،ٹریفک،ہیلتھ اور ڈھانچ بندی پر ابھی یوپی میں بہت کام ہونا باقی ہے عام آدمی کے لئے اب بھی اپنا علاج کرا پانا آسان نہیں ہے جمع کو اپنے فیصلے میں چیف جسٹس رنجن گگوئی کی بنچ سے یہ بھی کہا کہ اسمارکوں پر خرچ ہوا پیسہ سرکاری خزانے میں لوٹانا چاہیے ۔یہ صرف ان کا نظریہ ہے ،ابھی حکم نہیں دیا جا رہا ہے ۔

(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟