اور اب کیجریوال کے بہانے اپوزیشن اتحاد کا مظاہرہ

حال ہی میں دہلی کے وزیر اعلی اروند کیجریوال کے دھرنے نے ایک بار پھر اپوزیشن پارٹیوں کو ایک اسٹیج پر آنے کا موقعہ دے دیا ہے۔ اپوزیشن اتحاد کے پیروکار چندرابابو نائیڈو، ممتا بنرجی اورمارکسوادی پارٹی کا ساتھ آنااس کا اشارہ تھا۔ اس لئے چاروں پارٹیوں کے وزرائے اعلی کی مہم کو امکانی اپوزیشن اتحاد کی شکل میں دیکھا جاسکتا ہے۔ سامنے جو بھی رہا ہو لیکن پردے کے پیچھے مغربی بنگال کی وزیر اعلی ترنمول کانگریس کی لیڈر ممتا بنرجی ہی ان کوششوں کو آگے بڑھا رہی ہیں۔ اپوزیشن اتحاد کو لیکر وہ کافی دنوں سے سرگرم ہیں۔ ان کی کوشش صرف کیجریوال کو حمایت دینے تک محدود نہیں ہے۔ وہ بیجو جنتادل کے صدر نوین پٹنائک، این سی پی کے سربراہ شرد پوار و کانگریس کے سینئرلیڈروں سے بھی رابطہ میں ہیں۔ دراصل این ڈی اے سرکار کی گھیرا بندی کے لئے اپوزیشن دوہری پالیسی اپنا رہی ہے۔ پہلی حکمت عملی یہ ہے کہ لوک سبھا اور اس سے پہلے ہونے والے انتخابات ریاستوں میں علاقائی پارٹیاں مل کر لڑیں جس سے بھاجپا مخالف ووٹوں کا بٹوارہ نہ ہو۔ حکمت عملی تو یہ ہے چاہے وہ ودھان سبھا چناؤ ہوں یا لوک سبھا جہاں تک ممکن ہوسکے آمنے سامنے کی ٹکر ہو۔ اگر اسمبلیوں میں انہیں کامیابی ملتی ہے تو علاقائی پارٹیاں قومی سطح پر تیسرے مورچے یا دیگر کسی متبادل اتحاد کا خاکہ تیار کریں گی۔ ادھر نیتی آیوگ کی گورننگ کونسل کی دوروزہ میٹنگ میں شامل ہونے بہار کے وزیراعلی اور جنتادل یونائیٹڈ کے صدر نتیش کمار نے نیتی آیوگ کی میٹنگ میں وزیر اعظم نریندر مودی کو زور دار جھٹکا دیتے ہوئے نہ صرف آندھرا پردیش کے وزیر اعلی ایم چندرابابو نائیڈو کی حمایت کی بلکہ بہار کے لئے مخصوص ریاست کا درجہ دینے کا مطالبہ کرڈالا۔ اس میٹنگ میں چندرابابو نائیڈو نے ریاست کی تقسیم اور ریاست کو خصوصی کیٹگری کا درجہ دینے اور پولاشورم پروجیکٹ سے متعلق اشو کو اٹھایا۔ نوٹ بندی ، جی ایس ٹی کا اشو بھی نیتی آیوگ کے سامنے اٹھایا۔ ممتا بنرجی نے بھی نائیڈو کی مانگ کی حمایت کی۔ ادھر کانگریس نے کہا کہ اگر بہار کے وزیر اعلی نتیش کمار بھاجپا کا ساتھ چھوڑنے کا فیصلہ کرتے ہیں تو انہیں مہاگٹھ بندھن واپس لینے کے لئے اتحادی پارٹیوں کے ساتھ غور کرے گی۔ کانگریس کا یہ بیان اس وقت آیا جب حالیہ دنوں میں اگلے لوک سبھا چناؤ میں سیٹوں کے تال میل کے سلسلے میں جے ڈی یو اور بھاجپا کے درمیان کچھ تلخی دیکھنے کو ملی ہے جس وجہ سے یہ قیاس آرائیاں جاری ہیں کہ دونوں پارٹیوں کے درمیان سب کچھ ٹھیک نہیں ہے۔ اپوزیشن مودی سرکار کے خلاف اتحاد کا مظاہرہ کرنے کا کوئی موقعہ نہیں چھوڑ رہی ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟