بے لاگ ۔جانباز مدیر پر بز دلانہ حملہ

دہشتگردوں کا نہ کوئی مذہب ہوتا ہے اور نہیں وہ مذہب کو ماننے والے لوگوں کو بخشتے ہیں ۔ رمضان المبارک کا مقدس مہینہ ہے جس میں اللہ کے ماننے والے روزے تک رکھتے ہیں۔ عید پر گھر جا رہے جوان اور افطار کیلئے جارہے مدیر کو گولیوں سے بھون دیا ۔اسلام کے نام پر جہاد چھیڑ نے والے ان ہتھیاروں کو اسلام سے کتنا پیار ہے ۔ ان کی حرکات سے ثابت ہوتا ہے. نہ تو ان دہشت گردوں کیلئے اور نہ ہی پاکستان میں بیٹھے ان کے آقاوں کے لئے عیدکی کوئی اہمیت ہے. سینئر صحافی اور ایزنگ کشمیر کے ایڈیٹر شجاعت بخاری کو ان کو آفس کے سامنے (محفوظ مانے جانے والے پریس ایریا) میں تین موٹر سائیکل سوار ہتھیاروں نے گولیاں سے چھلنی کردیا ۔ ان کے ساتھ دو بوڈی گائڈوکی بھی موت ہوگئی ۔ بھارت ۔ پاک کے درمیان تعلقات بہتر بنانے کیلئے کشمیر میں بحالی کے عمل میں شامل تھے. وہ انگریزی روزہ نامہ رایزنگ کشمیر کے علاوہ اردو روزہ نامہ ساگر وال اور اردو اخبار بلند کشمیر مدیر. ان کے بڑے بھائی بشارت بخاری پی ڈی پی ۔ بی جے پی اتحاد حکومت میں باغبانی کے وزیر تھے۔ صحافی برادری اور ایڈیٹر گلڈس نے اس بزدلانہ حملے کی سخت مذمت کی ہے اور کہاکہ کہ پوری صحافی براردی غم زدہ ہیں کشمیر میں تقریبا تین دہائیوں کی تشدد میں بخاری چوٹے ایسے صحافی ہیں، جن کودہشت گرد وں نے قتل کیا ہے. اس سے پہلے 1991 میں الاسفا کے ایڈیٹر محمد شبن وکیل کو حزب المجاہدین کے دہشت گردوں نے موت کی گھاٹ اتار دیا تھا. بی بی سی کے سابق صحافی یوسف جمیل اپنے دفتر میں بم دھماکے میں زخمی ہو گئے تھے لیکن اس واقعے میں اے این آئی کے کیمرامین مشتاق علی کا انتقال ہوا گیا تھا . سال 2003 میں 'نافا کے مدیر پرویز محمد سلطان کو ان کے دفتر میں پریس انکلومیں حزب المجاہدین کے دہشت گردوں نے گولی مار دی تھی ۔شجاعت بخاری کو بھی دہشت گردوں نے 1996 اور 2006 میں اغوا کر لیا تھا. 1996میں 19صحافیوں شجاعت بخاری کو 7گھنٹے بعد رہا کردیا تھا 2006 میں انہیں مارنے کی کوشش کی گئی تھی، لیکن اس کوشش کے بعد انھیں سیکورٹی بھی دی گئی تھی ان کے خاندان میں بی بی اور دوبچے ہیں شجاعت کئی برسو ں تک جموں وکشمیر میں اخبار دہ ہندو کے بیروہ چیف تھے وہ ایک بے لاگ تحریر یں لکتھے تھے اور بولتے بھی تھے یہ حملے کا اظہار رائے کی آزادی اور جمہوریت پر . بخاری پر ایسے وقت حملہ ہوا ہے جب رمضان میں فوجی کارروائیاں روکی ہوئی تھی انھوں نے جموں کشمیر میں بحالی امن میں کافی اہم کوششیں کی جس دن ان کا قتل ہوا سی دن صبح حز ب کے کمانڈر سمیر ٹائی گر کو مار گرایا اس کارروائی میں شامل ہوئے 44 قومی رائیفلز کے ایک جانباز جوان گ اورنگ زیب کو دہشتگردوں نے اغوا کر لیا اور شام ہوتے ہوتے قتل کر دیا. اس سے ایک روز پہلے سرحدپار سے فائرنگ میں ہمارے چار جوان شہید ہوگئے یعنی ایک طرف جموں وکشمیر میں آتنکی قہر اور دوسری طرف سرحد پر جنگ بندی . یہ دونوں چیزیں مختلف نہیں ہو سکتی کیونکہ ان دونوں کے پیچھے پاکستان کا ہاتھ ہے. پاکستان ظاہر ہے کہ جموں وکشمیر میں امن نہیں چاہتا. کشمیر کے جو لوگ دہشت گردوں کے تئیں ہمدردی رکھتے انہیں بھی سمجھنا چاہئے کہ ان دہشت گردوں کیلئے انسانیت کوئی معنی نہیں رکھتی. ایک ایک کشمیری کو آ تنکیوں اور سر حد پار بیٹھے ان کے آقاؤں کی سخت الفاظ میں مذمت کرنا چاہئے. حکومت کو بھی سمجھ آ جانی چاہئے کہ ان دہشت گردوں اور ان کے آقاؤں کے تئیں کسی رعایت یا ہمدردی کا کوئی مطلب نہیں شجاعت شہید ہو گئے، لیکن ان کی لکھی باتیں اور انکی یاد ہمیشہ ہمیشہ تازہ رہی گی. ہم انکو خراج عقیدت اور اور انکے خاندان کے تئیں اپنی ہمدردی کا اظہار کرتے ہیں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟