مشن 2019 کیلئے قربان ہوئی جموں کشمیر حکومت

یہ تو ہونا ہی تھا کہ بھاجپا نے پی ڈی پی سے اتحاد توڑلیا۔ محبوبہ مفتی نے اپنے عہدہ سے استعفیٰ دے دیا۔ جموں و کشمیر میں صدر راج نافذ ہوگیا۔ شروع سے ہی یہ ایک غیر فطری اور غیر معمولی اتحادتھا اور پہلے دن سے ہی کہا جارہا تھا کہ یہ گٹھ بندھن چلنے والا نہیں ہے۔ منگلوار کی دوپہر اس اتحاد کے خاتمے کا اعلان ہوگیا۔ جموں و کشمیر میں قریب ساڑھے تین سال تک نوک جھونک آپسی ٹکراؤ کے ساتھ سرکار چلانے کے بعد بھاجپا۔ پی ڈی پی کا بے میل اتحاد ٹوٹنا ہی تھا۔ اسمبلی کے معلق نتیجہ کے بعد جب کوئی سرکار نہیں بن رہی تھی تو بھاجپا نے پی ڈی پی کے ساتھ سرکار بنانے کا جو خطرہ مول لیا تھا وہ پی ڈی پی سے زیادہ بھاجپا کو بھاری پڑنے لگا۔ بھاجپا کو لگنے لگاتھا کہ اس سرکار سے بھاجپا کا ہندو ووٹ بینک متاثر ہورہا ہے۔ جموں خطہ جس کے بلبوتے پر بھاجپا نے سرکار بنائی تھی اسی کو نظرانداز کیا جارہا ہے۔محبوبہ کا سارا زوروادی پرتھا۔ جموں خطہ میں نہ تو کوئی ترقی ہورہی تھی اور نہ ہی بھاجپا حمایتیوں میں پارٹی کی ساکھ بن رہی تھی۔ پاکستان نے سیاسی طور پر جموں کے سرحدی دیہات کو نشانہ بنا کر وہاں سے ہجرت شروع کرادی تھی۔ محبوبہ سرکار نے جموں کے لوگوں کی کوئی مدد نہیں کی۔ یہاں تک کہ سرحدی گاؤں میں پاک فائرنگ کے شکار لوگوں کو اپنے رشتہ داروں کی لاشیں تک اپنے ٹریکٹروں میں لانی پڑ رہی تھیں۔ اب تو نوبت یہاں تک آچکی تھی کہ جموں شہرسے ہندو ہجرت کرنے پر مجبورہوگئے تھے۔ بھاجپا اعلی کمان کو یہ ڈر ستانے لگا تھا کہ کہیں دیش کے باقی حصو ں میں جموں کی وجہ سے ان کا ہندو ووٹ بینک متاثر نہ ہوجائے اس لئے انہوں نے بہتر سمجھا کہ اس سرکارسے چھٹکارہ پائیں۔ بیشک کئی وجوہات گنائی جارہی ہیں اس میں سے کچھ میں دم بھی ہے۔ محبوبہ کی ضد پر نہ چاہتے ہوئے بھی بھاجپا کورمضان کے مہینے میں یکطرفہ جنگ بندی کرنی پڑی۔ اس یکطرفہ کارروائی پر روک سے آتنکیوں کے خلاف فوجی کارروائی کو زبردست جھٹکا لگا جبکہ آتنکی برابر حملہ کرتے رہے اور آتنکی تشدد میں کوئی خاص کمی نہیں آئی۔ اس طرح پاک فوج کے ذریعے کارروائی نہ چلانے سے اس ایک مہینے میں 52 دہشت گرد بچ گئے۔ ایک طرفہ کارروائی پرروک کے دوران کل 46 آتنکی حملہ ہوئے جبکہ اس کے پہلے مہینے کے دوران55 واقعات ہوئے۔ محبوبہ تو رمضان کے بعد بھی جنگ بندی بڑھانے پر زور دے رہی تھیں لیکن بھاجپا نے کہا بہت ہوچکا ہے اب آگے نہیں کیونکہ تین برسو ں میں سکیورٹی فورس کے ہاتھ باندھنے اور علیحدگی پسندوں کے تئیں نرمی برتنے کے سبب حالات بے قابو ہوگئے اور جموں و کشمیر کی اندرونی حالت تقریباً 90 کی دہائی میں پہنچ گئی۔ دراصل ریاست میں سرکار تو اتحادی تھی لیکن سارے فیصلہ وزیر اعلی محبوبہ مفتی لیا کرتی تھیں محبوبہ کا ہمیشہ رجحان علیحدگی پسندوں کی طرف تھا جبکہ مفتی محمد سعید کے عہد میں علیحدگی پسند کنٹرول میں تھے۔ پتھر بازی اور دہشت گردی کے واقعات تو بڑھ رہے تھے پتھر بازو کے خلاف سخت قدم اٹھانے سے محبوبہ فوج کو روکتی رہیں،فوجی پٹتے گئے اس سے فوج میں بھاری ناراضگی پیدا ہونے لگی۔ محبوبہ نے الٹے پتھربازوں کا ساتھ دیا اور 11 ہزار ایف آئی آر واپس لے لی گئیں۔ بعد میں محبوبہ بھی لاچار ہوگئیں اور حالات بگڑتے ہی چلے گئے۔ اس دوران مسلح فورسز اسپیشل ایکٹ (افسپا) کو کمزور کرنے اور نیم فوجی فورس کا حوصلہ توڑا گیا۔ پتھر بازوں کے چکر میں پوری دنیا کا دھیان وادی پر لگ گیا جبکہ جموں اور لداخ کے لوگ اپنے آپ کو بے سہارا محسوس کرنے لگے۔ اسمبلی چناؤ میں بھاجپا کو کشمیروای سے کچھ نہیں ملا۔اس کا مینڈیٹ جموں تک محدود تھا یہاں تک کہ 37 میں سے25 سیٹیں بھاجپا کو ملی تھیں جبکہ لداخ میں کانگریس کو بڑھت ملی تھی۔ آ ر ایس ایس اوربھاجپا کیڈر نے مرکزی لیڈر شپ کوصاف طور پر جتادیا تھا کہ پی ڈی پی کو حمایت دیتے رہے تو جموں ہاتھ سے نکل جائے گا۔ پچھلے سنیچر کی رات کو وزیر اعظم نریندر مودی اور بھاجپا صدر امت شاہ اور آر ایس ایس کی کور کمیٹی کی میٹنگ دیر رات بلائی گئی جس میں پی ڈی پی سے حمایت واپس لینے کا فیصلہ لیا گیا۔ بھاجپا نے دراصل مشن 2019 کی راہ کے کانٹے دور کرنے کے لئے پی ڈی پی سے ناطہ توڑنے کا فیصلہ لیا۔ بھاجپا کو امید ہے کہ اس فیصلے کا مثبت سندیش جائے گا۔ دراصل آر ایس ایس تو دو برس پہلے ہی ناطہ توڑنے کے حق میں تھی حالانکہ تب سرکار اور پارٹی کو حالات اپنے حق میں کرلینے کی امید تھی۔ جنگ بندی کے اعلان کے بعد فوجی جوان اورنگ زیب اور صحافی شجاعت بخاری کے قتل اور فوج کے افسروں پر ایف آئی آر جیسے معاملوں کے سبب بھاجپا ۔ پی ڈی پی کے رشتے خراب ہوئے نتیجتاً مرکز نے محبوبہ کی عید کے بعد بھی جنگ بندی ضروری رکھنے کی صلاح مسترد کردی۔ پچھلے ہفتے سورج کنڈ میں ہوئی آر ایس ایس سے جڑی تنظیموں اور بھاجپا تنظیم کے عہدیداروں کی میٹنگ میں اس مسئلے پر گہرائی سے غور و خوض ہواکہ جموں و کشمیر میں صدر راج لگادیا جائے۔ فی الحال تو یہاں گورنر کا راج چلے گا۔گورنر ایم این ووہرا جے اینڈ کے میں گورنر کی شکل میں قریب دس برسوں سے کام کررہے ہیں۔ ان کی سبھی فریقین میں مقبولیت ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ بھاجپا ۔ پی ڈی پی سرکار کے زوال کے بعد مرکزی سرکار نے ان کی میعاد بڑھانے کا فیصلہ لیا۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟