بیشک عدم اعتماد سے نمٹنے میں سرکار اہل ہے تب بھی۔۔۔

پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں جاری تعطل12 ویں دن بھی برقرار رہا۔ اس کے چلتے تیلگودیشم پارٹی اور وائی ایس آر کانگریس کے ذریعے سرکار کے خلاف لائے گئے تحریک عدم اعتماد کے پرستاؤ پر ایوان میں ہنگامہ کے چلتے کوئی کام نہ ہوسکا۔ حالانکہ سرکار کی طرف سے صاف طور پر کہا گیا کہ اسے تحریک عدم اعتماد کے پرستاؤ سمیت کسی بھی اشو پر بحث سے کوئی پرہیز نہیں ہے یہ بات شیشے کی طرح صاف ہے۔ تیلگودیشم، وائی ایس آر کے پروستاؤ سے نریندرمودی کی حکومت گرنے والی نہیں ہے لیکن اس سے این ڈی اے میں دراڑ ضرور اجاگر ہوگی اور اپوزیشن اتحاد کا ماحول ضرور بنے گا۔ تیلگودیشم پارٹی کے این ڈی اے سے ناطہ توڑ لینے کے باوجود ابھی بھاجپا کے بھی 274 ایم پی ہیں۔ این ڈی اے سرکار کے خلاف تحریک عدم اعتماد کا کوئی اثربھلے ہی نہ پڑے لیکن حالیہ ضمنی چناؤ کے نتیجوں خاص کر اترپردیش کے گورکھپور اور پھولپور و بہار کے ارریہ میں بھاجپا کی کراری ہار کے بعد آنے والے انتخابات کے پیش نظر اس نے اپوزیشن کو ماحول گرمانے کا یکساں موقعہ تو دے دیا ہے۔ آندھرا پردیش کے وزیر اعلی چندرابابو نائیڈو خاصی جلدبازی میں ہیں اور ریاست کو اسپیشل درجہ کے معاملہ میں کسی کو اور کوئی موقعہ نہیں دینا چاہتے۔ تب تو اور بھی نہیں جب وائی ایس آر کانگریس کی شکل میں ایک مضبوط حریف سامنے ہو۔ جس کے نیتا جگموہن ریڈی سے ناراض ریاست کی جنتا کو یہ بتانے میں سرگرم ہوں کے چار سال تک مرکز اور ریاست دونوں میں اقتدار میں رہنے کے باوجود چندرابابو نائیڈو ریاست کو کچھ نہیں دلا سکے۔ ریڈی کی یہ سرگرمی نائیڈو کے گلے کی پھانس بن گئی ہے۔ پچھلے لوک سبھا چناؤ میں ان کے اتحاد کے ووٹ شیئر اور وائی ایس آر کانگریس کے ووٹ شیئر میں محض ڈھائی فیصدی کا فرق انہیں بے چین کررہا ہے۔ ظاہر ہے نائیڈو نہ تو وائی ایس آر کانگریس کو کوئی موقعہ دینا چاہتے ہیں اور نہ ہی جنتا کو یہ سوال پوچھنے کا موقعہ مرکز کا پچھل پنگو بننے کے باوجود وہ ریاست کو کچھ نہیں دلا سکے؟ ایسے میں سرکاراور اتحاد سے ناطہ توڑنا ہی سب سے آسان طریقہ تھا۔ ادھرترنمول کانگریس اور مارکسوادی پارٹی نے بھی تحریک عدم اعتماد کی حمایت کا وعدہ کرکے مغربی بنال کی اپنی سیاسی دشمنی کو کنارے کردیا ہے۔ دیکھنا ہے کہ سماجوادی پارٹی جس کے لوک سبھا ممبران کی تعداد اب7 ہوگئی ہے وہ کیا فیصلہ لیتی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ شرومنی اکالی دل اور اپیندر کشواہا کی پارٹی آر ایل ایس پی کا موقف کیا ہے؟ وہ پارٹیاں این ڈی اے کا حصہ ہوتے ہوئے بھی وزیر اعظم نریندر مودی کے رویئے سے ناراض ہیں۔ اس درمیان انا ڈی ایم کے نے کاویری مینجمنٹ بورڈ کی مانگ اچھالتے ہوئے سرکار کو خبردار کیا ہے کہ اگر اس نے بورڈ نہیں بنایا تو احتجاج میں ووٹ کرے گی۔ دیکھا جائے تو ٹی ڈی پی، وائی ایس آر،سی پی آئی اور انا ڈی ایم کے کی مانگیں ایک طرح سے چناوی موقعہ پر کی جانے والی سودے بازی کی حکمت عملی ہیں۔ دوسری طرف مرکزی سرکار کا یہ کہنا اصولی طور سے ٹھیک ہوسکتا ہے کہ 14 ویں مالیاتی کمیشن میں مخصوص ریاست کا درجہ جیسی کوئی سہولت نہیں ہے لہٰذا تیلگودیشم پارٹی کی مانگ پوری نہیں ہوسکتی۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ریاست اتنے اہل اور خود کفیل بنے کے انہیں مرکز کی بیساکھی کی ضرورت نہ ہو۔ اس کے لئے مرکز اور ریاست دونوں کے درمیان بہتر تال میل ضروری ہے۔ تبھی بات چیت مثبت طور سے ہوسکے گی۔ وزیر پارلیمانی امور مختار عباس نقوی نے ٹھیک ہی کہا کہ چناوی سال ہے اور ایسا احتجاج اور عدم اعتماد ریزولوشن کی روایت کا ایک حصہ ہے۔ ظاہر ہے بھاجپا اپنی نمبروں کی طاقت اور تنظیم کے ذریعے سے ایسی چنوتیوں سے نمٹنے میں اہل ہے۔ یہ این ڈی اے کی اتحادی پارٹیوں کی طرف سے لگائے جانے والے الزامات اور مودی سرکار کی ساکھ زیادہ تیزی سے بگاڑیں گے۔ موجودہ سرکار کے چار سال کی میعاد پوری ہونے سے پہلے عدم اعتماد پرستاؤ سے کئی پارٹیوں کی جھجھک ٹوٹے گی اور وہ آنے والے چناؤ کے لئے اپنے دوست اور دشمن کا فیصلہ کرسکیں گی۔ یہ سب اس لئے بھی ہورہا ہے کیونکہ اپنے چار سال کی میعاد میں ضمنی چناؤ میں بھاجپا کی ہار سے سبھی کو اچھلنے کا موقعہ مل گیا ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟