پھر تیز ہوئی تیسرے مورچہ کی کوشش

جب بھی دیش میں سیاسی اتھل پتھل ہوتی ہے تیسرے مورچہ کی حسرت پھر جواں ہوجاتی ہے۔ 2019 کے عام چناؤ سے پہلے اتحادیوں کا بی جے پی سے الگ ہونا اور کانگریس کو کمزور پڑنے کے درمیان تیسرے مورچہ کی ایک بار پھر آہٹ ہونے لگی ہے۔ تمام علاقائی پارٹیوں میں غیر کانگریسی ،غیر بھاجپا مورچہ بنا کر اگلے چناؤ میں متبادل دینے کی بات اٹھ رہی ہے۔ اس کی شروعات مغربی بنگال کی وزیر اعلی نے کی تھی اور خود کو قومی متبادل کی شکل میں پیش کیا۔ دو دن پہلے ہی وہ تلنگانہ کے وزیر اعلی چندرشیکھر راؤ بھی نئے سیاسی تجزیئے بنانے میں لگ گئے ہیں۔ بھاجپااور کانگریس کی یکساں آئیڈیالوجی والی پارٹیوں کو لیکر تیسرا مورچہ بنانے کی قواعد میں لگے نیتاؤں کی نظر کانگریس اور بھاجپا سے جڑی پارٹیوں پر ہے۔ اس کا اندازہ خود کانگریس کو بھی نہ رہا ہوگا اس کے ڈنر پر آئی پارٹیاں فیڈرل فرنٹ کی کوشش کے ساتھ اس کے ہی خلاف مورچہ کھول دیں گی۔ دراصل یہ پارٹیاں غیر کانگریس ،غیر بھاجپا پارٹیوں کو ساتھ لیکر ایک تیسرا فرنٹ بنانے کے امکانات تلاش رہی ہیں۔ اس کے تعبیر ہونے کا اعتماد بڑا آسان ہے۔ یوپی اے 1-2 کے دوران کئے گئے گناہوں کے بوجھ سے کانگریس ابھی تک دبی پڑی ہے۔ اترپردیش اور بہار میں ہوئے تازہ ضمنی چناؤ میں وہ صفر پر رہی ہے۔ وہیں نریندر مودی سرکار کی کمیوں کے چلتے اس کے ساتھی کھسکنے لگے ہیں۔ پچھلے دنوں یوپی اے چیئرپرسن سونیا گاندھی کے ذریعے یوپی اے۔3 بنانے کی کوششوں کو لیکر سرگرمیاں تیز ہوگئی ہیں۔ علاقائی پارٹیوں کی یہ کوشش اس سیاست کا حصہ ہے جس میں ان کا خیال ہے کہ موجودہ وقت میں بھاجپا کو روکنے میں کانگریس بے جان ہوچکی ہے۔ تیسرے مورچہ کی کوشش میں وہی نیتا لگے ہیں جنہیں یہ منظور نہیں کہ بھاجپا کے خلاف بننے والے کسی بھی مورچہ کی رہنمائی کانگریس کرے۔ سونیا گاندھی کے ڈنر میں کانگریس نے یہ صاف پیغام دینے کی کوشش کی تھی ۔ بھاجپا کو روکنے کے لئے یکساں نظریئے والی پارٹیوں کے اتحاد کی قیادت کانگریس کرنے کو تیار ہے لیکن تیسرے مورچہ کی تشکیل میں لگے نیتاؤں کو لگتا ہے کہ موجودہ سیاسی ماحول میں سونیا گاندھی کا یوپی اے کا فارمولہ اب صحیح نہیں ہے کیونکہ ریاستوں میں مسلسل سیاسی حریفوں کو ایک ساتھ آنے میں سیاسی دقتیں ہیں۔ اس کے علاوہ کانگریس کے ساتھ آنے سے این ڈی اے سے وابستہ کچھ سیکولر پارٹیوں کو بھی پرہیز ہوسکتا ہے۔ اب یہ تو وقت بتائے گا کہ تیسرے مورچہ کا مستقبل کیا ہوتا ہے لیکن اس کوشش نے کانگریس اور بھاجپا دونوں کے لئے خطرہ کی گھنٹی ضرور بجا دی ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟