کیجریوال کی معافی پر مچا واویلا

عام آدمی پارٹی اور اس کے سینئر لیڈر اروند کیجریوال کو اس لئے دہلی کی جنتا نے بھاری اکثریت سے اسمبلی چناؤ میں جتایا تھا کیونکہ وہ ایمانداری اور شفافیت کے نئے تجربہ کے دعوی اور وعدے کے ساتھ سیاست میں اترے تھے۔ جنتا کو یہ امیدنہیں تھی کیجریوال کسی جھوٹ یا افواہ کے سہارے اپنی سیاست چمکانے میں یقین رکھتے ہیں لیکن کیجریوال نے اقتدار میں آتے ہی آناًفاناً میں دوسرے لیڈروں پر الزام لگانے شروع کردئے۔ اروند کیجریوال نے پارٹی کے قیام کے پہلے دن سے ہی اس وقت کی وزیر اعلی شیلا دیکشت پر بڑا زبانی حملہ کیا تھا وہیں بعد میں رابرٹ واڈرہ ،بھاجپا نیتا نتن گڈکری جیسے بڑے نیتاؤں و صنعت کاروں پر الزام لگادئے۔ میڈیا نے بھی کیجریوال کے سنسنی خیز الزامات کو توجہ دی تھی۔ اس کا نتیجہ ہتک عزت کے مقدموں کے طور پر سامنے آیا۔ پنجاب اور دہلی اسمبلی کے لئے چناؤکمپین کے دوران کیجریوال نے اس حکمت عملی پر کام کیا۔ تازہ معاملہ پنجاب میں شرومنی اکالی دل لیڈر اور سابق ریاستی وزیر بکرم سنگھ مجیٹھیا سے اروند کیجریوال کے معافی مانگنے سے وابستہ ہے۔ غور طلب ہے کہ انہوں نے پنجاب اسمبلی چناؤ کے دوران مجیٹھیا کو منشیاتی چیزوں کے اسمگلروں کا سرغنہ کہا تھا۔ حالانکہ اس وقت ان کے پاس اس الزام کی کیا بنیاد تھی یہ صاف نہیں۔ اب کیجریوال نے مجیٹھیا سے جمعرات کے روز باقاعدہ تحریر میں معامی مانگ لی ہے۔ اپنے معامی نامے میں کیجریوال نے مجیٹھیا سے کہا ہے کہ وہ سبھی الزام بے بنیاد نکلے اس لئے وہ معافی مانگتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں غلطی کا احساس ہونے پر معافی مانگ لینا سنجیدگی اور سادگی کا ثبوت ہے لیکن اگر کیجریوال کو دیگر نیتاؤں سے معافی مانگی پڑے تو یہ فہرست لمبی ہے۔ ابھی ابھی خبر ملی ہے کہ انہوں نے مرکزی وزیرنتن گڈکری اور کانگریسی نیتا کپل سبل سے بھی معافی مانگی ہے۔معافی ناموں کی شروعات ہے ۔ اب آگے وہ کس سے معافی مانگتے ہیں یہ دیکھنے کی بات ہے۔ فی الحال کیجریوال کے خلاف مرکزی وزیر خزانہ ارون جیٹلی اور نتن گڈکری اور سابق وزیر اعلی شیلا دیکشت سمیت36 لوگوں نے ان پر ہتک عزت کے مقدمے ڈال رکھے ہیں۔ اس میں سے کئی معاملوں میں کیجریوال کو اپنی بات ثابت کرنے کے لئے ثبوت دینا ہوگا۔ مجیٹھیا سے معافی مانگنے کے بعد ان کی اپنی پارٹی میں بغاوت جیسی حالت بن گئی ہے۔ پارٹی کے باغیوں میں شمارکئے جانے والے کمار وشواس اور کپل مشرا کے علاوہ پارٹی ایم پی سنجے سنگھ نے بھی کیجریوال کی معافی کی مخالفت کی ہے۔ عاپ ایم پی بھگونت مان نے جمعہ کو پنجاب یونٹ کے صدر کے عہدے اور اسمبلی پارٹی کے لیڈر اروڑہ نے بھی نائب صدر کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے۔ لوک انصاف پارٹی نے بھی عام آدمی پارٹی کے ساتھ پنجاب میں اتحاد توڑلیا ہے ۔ غور طلب ہے کہ عام آدمی پارٹی کے کئی نیتاؤں پر ہتک عزت سمیت کئی طرح کے معاملہ چل رہے ہیں۔ ان میں کیجریوال سمیت کئی نیتاؤں کو ان مقدموں میں کافی وقت برباد کرنا پڑ رہا ہے اس لئے پارٹی نے ان معاملوں کو نپٹانے کا فیصلہ کیا ہے۔ سوال یہ ہے متبادل سیاست کی دہائی دے کر جنتا کے درمیان مقبول ہونے والے اروند کیجریوال یا ان کے ساتھی اگر اپنے ہی الزامات کو لیکر واضح اور ٹھوس نہیں ہوتے تب انہیں ایسے الزام لگانے کی ہڑبڑی کیوں ہوتی۔ شاید یہ پہلا موقعہ ہے جب کسی ریاست کے وزیر اعلی نے اس طرح غیر ضروری الزام لگا کر پبلک طور سے معافی مانگی ہو؟ ابھی تو معافی ناموں کی شروعات ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟