پوتن نہیں تو روس بھی نہیں

پوتن نہیں تو روس بھی نہیں یہ خیال ہے کریملن کے ڈپٹی چیف آف اسٹاف کا۔ ولادیمیر پوتن کو روس کی جنتا نے چوتھی بار دیش کا اقتدار سنبھالنے کے لئے زبردست مینڈینڈ دیکر یہ اشارہ دیا ہے کہ ان کی لیڈر شپ کولیکر روسی جنتا کے دل و دماغ میں کوئی غلط فہمی نہیں ہے۔ پوتن نے لوگوں کو یقین دلا دیا ہے کہ ان کی جگہ کوئی اور نہیں لے سکتا۔ سرکاری نتیجوں کے مطابق انہیں 76 فیصدی سے زیادہ ووٹ ملے ہیں اور یہ فیصد سال 2012 کے چناؤ سے بھی زیادہ ہے۔ پوتن ایک ایسا شخص ہے جو کسی سے ڈرتا نہیں۔ پوتن نے صدارتی چناؤ ایسے وقت میں جیتا ہے جب بین الاقوامی سطح پر امریکہ سمیت مغربی ملکوں کے ساتھ ان کی ایک طرح سے واضح طور پر زبردست ٹکراؤ کی صورتحال چل رہی ہے لیکن ان کے رخ سے صاف ہے کہ وہ کسی بھی طاقت کے سامنے نہیں جھکے۔ نہ ہی کوئی ایسا سمجھوتہ کیا ہے جو دنیا میں روس کے کمزور پڑنے کا اشارہ دیتا ہے۔ اسی سے پوتن کی ساکھ اور مضبوط اور پختہ ارادہ والے عالمی لیڈر کی بنی ہے۔ ایسے وقت میں پوتن چناؤ جیتے ہیں جب روس اور مغربی دیشوں کے رشتہ خراب دور سے گزر رہے ہیں۔ روس کی جنتا نے پوتن کو ہی اگلے چھ برسوں کے لئے صدر چنا ہے۔ اب وہ 2024 تک اس عہدے پر رہیں گے۔ پوتن 2024 میں اپنی میعاد ختم ہونے کے وقت 71 سال کے ہوجائیں گے۔ اس وقت سوویت حکمراں جوزف اسٹالن کے بعد سب سے لمبے عرصے تک نیتا رہنے والے شخص بھی ہوں گے۔ سن2000 میں جب پوتن پہلی بار دیش کے صدر بنے تھے تب انہیں 53 فیصد ووٹ ملے تھے۔ ظاہرہے روس میں پوتن کی مقبولیت میں مسلسل اضافہ ہوا ہے۔ سوویت یونین کی تقسیم کے بعد لمبے عرصے تک روس میں جو اتھل پتھل کی پوزیشن رہی اس سے روس کو باہر نکالنے میں پوتن کا بڑا اشتراک مانا جاتا ہے۔ اس درمیان پوتن نے صرف گھریلو محاذ نہیں بلکہ عالمی سطح پر بھی اپنی دھاک قائم کی ہے اس لئے وہ روسی جنتا کے لئے ایک بار پھر ہیرو بنے ہیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ صدر کے طور پر چوتھی میعاد پوتن کے لئے چیلنج بھری ہوگی۔ اس وقت شام اور امریکہ اور روس کے درمیان مقابلہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ شام کو لیکر کوئی بھی فریق جھکنے کو تیار نہیں ہے۔ امریکہ کو لگ رہا ہے کہ اگر شام معاملہ میں وہ روس کے سامنے کمزور پڑا تو ساری دنیا کی نظر میں روس پھر سے طاقتور درجہ حاصل کرسکتا ہے۔ پھر پوتن ایسے وقت چوتھی بار صدر چنے گئے ہیں جب پڑوسی دیش چین میں صدر شی جن پنگ کی زندگی بھر کے لئے اپنے عہدے پر بنے رہنے کا راستہ صاف کردیا گیا ہے۔ روس کے درمیان بڑھتی نزدیکی سے سب سے زیادہ فکر مند امریکہ ہے۔ 2014 میں کروسیا کے انضمام کے ذریعے پوتن نے مغرب سے لوہا لیا تھا اور اس کے بعد لگی اقتصادی پابندیوں کو انہوں نے دیش میں مینوفیکچرنگ فیکٹر کو مضبوط کرنے کے موقعہ میں بدل دیا۔ ان کی جیت کا عالمی سیاست پر اثر پڑنا طے ہے۔ خاص طور پر اس لئے بھی کیونکہ مغربی دیشوں کے ساتھ روس کے رشتے سرد جنگ کے خاتمے کے بعد آج سب سے نچلی سطح پرہیں۔ جہاں تک بھارت سے رشتوں کی بات ہے تو اس کے مضبوط ہونے کے ہی آثار ہیں۔ البتہ یہ دیکھنا ہوگا کہ پوتن فوجی اور سیاسی رشتے کو مضبوطی دیتے ہوئے باہمی تجارت کو کس اونچائی تک لے جاتے ہیں۔ حالانکہ یہ بھی سچ ہے کہ پچھلے سال روس نے پاکستان کے ساتھ فوجی مشقیں کی تھیں ۔ ایسے میں پوتن ایشیا میں علاقائی توازن بنائے رکھتے ہوئے روس کو پھر سے بڑی طاقت کی شکل میں کیسے قائم کر پاتے ہیں یہ تو وقت ہی بتائے گا۔ صدر پوتن کو اس شاندار جیت پر مبارکباد۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟