کیا بینک آڈیٹروں کی ملی بھگت سے ہوا گھوٹالہ

کیا ایسا ممکن ہے کہ وہ کسی امتحان دینے والے کو اپنا ممتحن چننے کی چھوٹ دے دی جائے اور بعد میں شکایت کی جائے کہ امتحان میں دھاندلی ہوئی ہے؟ سرکاری بینکوں کے آڈیٹ میں یہی ہورہا ہے۔ پنجاب نیشنل بینک میں دیش کے سب سے بڑے گھوٹالہ کے چلتیسینئر آڈیٹروں کے رول پر بھی سوال اٹھ رہے ہیں۔ اس وقت پبلک سیکٹر بینکوں کو اپنے آڈیٹروں کی تقرری کا اختیار ہے اور یہ گھپلہ سامنے آنے کے بعد سوال کئے جارہے ہیں کہ پی این بی کے آڈیٹر 11400 کروڑ روپے کی دھوکہ دھڑی کو سات سال تک کیسے نہیں پکڑ پائے۔ سرکاری بینکوں کو آڈیٹ چننے کی آزادی ہے۔ وہ اس کے کام کا جائزہ بھی شامل ہے۔ ایسا نہ ہوتا تو شاید2011 سے چل رہے پی این بی گھوٹالہ پہلے ہی پکڑ میں آجاتا۔ یہ سسٹم 6-7 سال پہلے بدلا گیا۔ اس سے پہلے ریزروبینک سرکاری بینکوں کے لئے خود آڈیٹر نامزد کرتا تھا۔ اب آر بی آئی سی اے کا ایک پینل بنا کر بھیج دیتا ہے۔ مارچ کے آخری ہفتہ میں یہ بینک شاخوں کے آڈیٹ کے لئے پینل سے آڈیٹر چنن لیتے ہیں۔ اپریل کے پہلے ہفتہ میں آڈیٹر کو جانچ رپورٹ بینک کو دینی ہوتی ہے۔ چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ کا ماننا ہے کہ اس خامیوں کا فائدہ بینک افسر اور آڈیٹر دونوں ہی اٹھا رہے ہیں۔ خود وزیر مالیات ارون جیٹلی نے گھوٹالہ کے لئے چند بینک افسروں اور آڈیٹروں کو قصوروار ٹھہرایا ہے۔
وزیر موصوف نے کہا کہ ہمارے آڈیٹر کیا کررہے ہیں؟ آڈیٹر یا تو اسے دیکھ نہیں رہے ہیں یا اسے تلاش کرپانے میں ناکام رہے ہیں۔ نگرانی ایجنسیوں کے لئے بھی چنوتی ہے کیا قدم اٹھائے جائیں ایسے معاملہ دوبارہ نہ ہوں ۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ کسی کمپنی کی ناجائز کارگزاریوں میں شامل رہا سی اے اگر ملزم پایا جاتا ہے تو اس پر محض تین مہینے کی پریکٹس بند اور ایک لاکھ روپے جرمانہ کی کارروائی کی شرط ہے۔ اتنا ہی نہیں سی اے کے خلاف شکایت کے ازالہ میں کئی سال لگ جاتے ہیں۔ پی این بی کے گھوٹالہ سے پہلے نوٹ بندی کے دوران بھی کئی سی اے پروفیشنل پر گڑبڑی کرنے اور پرانے نوٹوں کو نئے نوٹوں سے بدلوانے میں شامل رہنے کے الزام لگے تھے۔ نوٹ بندی کے دوران گڑ بڑی کر نوٹ بدلوانے کے الزام میں سرکار نے 34 سی اے پروفیشنل کے نام آئی سی اے آئی کو دئے تھے۔ بغیر سی اے کی مدد سے پی این بی گھوٹالہ ممکن نہیں تھا۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟