رجنی کانت کے بعد کمل ہاسن بھی سیاست میں اترے

ساؤتھ انڈیا نے ہمیشہ سے فلم اور سیاستدانوں کا چولی دامن کا ساتھ رہا ہے۔ اب فلم سے سیاست میں آنے والے نئح ہیرو ہیں کمل ہاسن۔ اس سے کچھ پہلے رجنی کانت سرگرم سیاست میں آئے تھے۔ بدھوار کو اداکار کمل ہاسن تمل ناڈو کے سیاسی میدان میں اتر آئے ہیں۔ تاملناڈو میں 2021 ء میں اسمبلی چناؤ ہونے ہیں۔ بدھوار کو مدورے میں دہلی کے وزیر اعلی اروند کیجریوال کی موجودگی اور حمایتیوں کے درمیان کمل ہاسن نے اپنی پارٹی مکل ندھی میم لانچ کی۔ ہندی میں اس کا مطلب ’لوک نیائے منچ‘ ہوتا ہے۔ کمل ہاسن نے رمیشورم میں سابق صدر اے پی جے عبدالکلام کے گھر سے نئی پارٹی لانچ کی ۔ ڈاکٹر کلام کو اپنا ماڈل بتاتے ہوئے انہوں نے پارٹی کو لوگوں کی پارٹی قرار دیا۔دراصل جے للتا کی موت کے بعد تاملناڈو نئی بے یقینی دور سے گزر رہا ہے اور اس میں ڈوبنے اور اتارنے کی کئی سیاسی امکانات پیدا ہوئے ہیں۔ کمل ہاسن نے سابق صدر کلام کے خاندان سے دعا لی ہور رامیشورم کے ماہیگروں سے حمایت لے کر مدورائی سے جو سیاسی سفر شروع کیا ہے وہ چنئی کے فورٹ سینٹ جارج میں واقع اسمبلی تک پہنچے گا۔ دہلی کے پارلیمنٹ ہاؤس تک آئے گا۔یہ تو وقت ہی بتائے گا کمل ہاسن کی سیاست میں انا ڈی ایم کے، ڈی ایم کے جیسی علاقائی پارٹیوں کا ہی نہیں بلکہ بھاجپا کی بھی مخالفت ہے۔ جے للتا کی پارٹی کو متحد رکھ کر اقتدار میں قائم رکھنے کا کام بھاجپا کی لیڈرشپ کررہی ہے لیکن اس کے باوجود یہ رشتہ آسان نہیں ہے۔ ادھر دو بار چناؤ ہارنے کے بعد ڈی ایم کے بہت ہی بے چین ہے اور آنے والے چناؤ میں اپنی پوری طاقت جھونکنے کے لئے تیار ہے۔ اس کی قسمت سے ٹو جی گھوٹالہ سے کنی موجھی اور اے راجہ کے بری ہونے کا چھینکا ٹوٹا ہے ۔ اصلی سوال کمل ہاسن کے میدان میں اترنے اور اثر پڑنے کا ہے۔ اگر چناؤ متعین وقت 2021 میں ہوتا ہے تو انہیں کمپین کرنے اور اپنی تنظیم مضبوط بنانے کے لئے کافی وقت مل جائے گا۔ اگر دناکرن کے 18 ممبران اسمبلی پر اختلافی فیصلہ آنے کی وجہ چناؤ جلدی ہوتا ہے تو ڈی ایم کے اور انا ڈی ایم کے کے ذریعے سے بھاجپا زیادہ مضبوط ہوگی۔ دیکھنا یہ ہے کہ 2019 یا1989 کی طرح کوئی نیا پولرائزیشن ہوگا اور تاملناڈو سے دہلی تک کوئی بنیادی تبدیلی آئے گی یا پھر اپنی انہی پرانی دو پارٹیوں کے درمیان مقابلہ محدود رہے گا؟
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟