ہرشد مہتہ ،کیتن پاریکھ اور اب نیرو مودی

پنجاب نیشنل بینک گھوٹالہ نے دیش کے بینکنگ سسٹم کی پول کھول کر رکھ دی ہے ۔ جو بینک چند روپے کی وصولی کے لئے ملی بھگت تک پہنچ جاتے ہوں ان بینکوں سے رسوخ دار لوگ ہزاروں کروڑ روپے کیسے لوٹ لیتے ہیں؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب نہ توریزرو بینک کے پاس ہے اور نہ ہی سرکاری بینکوں کے پاس۔ ہرشد مہتہ، کتن پاریکھ، جتن مہتہ، وجے مالیہ سے لیکر نیرو مودی تک یہ کچھ نام ہیں جنہوں نے ایک ہی فارمولہ سے بینکوں کو چپت لگائی۔ ریزرو بینک کی گائڈ لائنس کے باوجود بینک کارروائی سے ہٹ کر کیسے اتنے بڑے لون دے دیتے ہیں یہ جانچ کا موضوع ہونا چاہئے اور یہی ثابت بھی کرتا ہے کہ دہائی گزر جانے کے بعد بھی دیش کے سرکاری بینکوں کی مالی سیکورٹی رام بھروسہ ہے۔ سرکاریں بدلتی رہی ہیں لیکن کسی نے بینکنگ سسٹم کی خامیوں کو بہتر بنانے کے لئے ایمانداری سے کام نہیں کیا۔ پی این بی کے لئے یہ پہلا معاملہ نہیں ہے پانچ سال پہلے ہیرا کاروباری جتن مہتہ کے ویتنام گروپ نے پی این بی کو موٹی چپت لگائی تھی۔ نیرو مودی نے بینکوں کو چپت لگانے کے لئے وہی فارمولہ اپنایا جس کا سہارا کیتن پاریکھ اور ہرشد مہتہ نے لیا تھا۔ ان سب نے دو بینکوں کے درمیان ہونے والے لین دین قواعد کا فائدہ اٹھاتے ہوئے۔ بینک کریڈٹ کا استعمال کیا۔ آن لائن لین دین میں سکیورٹی کے زیادہ انتظام نہ ہونے کے چلتے نیرو مودی نے بینک آن لائن لین دین کی خامیوں کا فائدہ اٹھایا۔ سوال یہ ہے کہ جب بینک سسٹم میں اتنی آسانی کے ساتھ سیند ماری کی جاسکتی ہے تو سرکار اور بینک مالی سیکورٹی کے پختہ انتظام کیوں نہیں ہوتے؟ ہرشد مہتہ و کیتن پاریکھ کی طرز پر نیرو مودی نے لیٹر آف کنفرڈکا فائدہ اٹھایا۔ پی این بی نے یہ گھوٹالہ برسوں سے چل رہا تھا اور بینک کے حکام سے لیکر سرکاری عملہ سوتا رہا۔ نیرو مودی کی کمپنیوں کو جاری انڈر ٹینگ کے لئے بینک میں مارجن منی کو بھی جمع نہیں کرایا گیا۔ پی این بی گھوٹالہ کی پرتیں کھلنے لگی ہیں اور ایک کے بعد ایک چونکانے والے حقائق سامنے آرہے ہیں۔ گیتانجلی گروپ کو غلط طریقے سے لون دینے کے خلاف آواز اٹھانے والے الہ آباد بینک کے سابق ڈائریکٹر نے دعوی کیا ہے کہ یہ گھوٹالہ یوپی اے سرکار کے دور سے چلا آرہا ہے اور این ڈی اے سرکار میں کئی گنا زیادہ بڑھ گیا ہے۔ بینک کے سابق ڈائریکٹر دنیش دوبے نے کہا میں نے گیتانجلی جیمس کے خلاف 2013 میں سرکار اور آر بی آئی کو ڈیسینٹ نوٹ بھیجا ھتا لیکن مجھے حکم دیا گیا تھا کہ ان قرضوں کو منظور کرنا ہے، مجھ پر دباؤ ڈالا گیا، آخر کار میں نے استعفیٰ دے دیا۔ انہونے یہ بھی کہا کہ سرکار میں چلا آرہا گھوٹالہ این ڈی اے سرکار میں 10 گنا و 50 گنا بڑھ گیا۔ 2013 میں شکایت کرنے پر انہیں مالیاتی سیکریٹری نے اوپری دباؤ کی بات کہہ کر سوتنتر ڈائریکٹرکے عہدے سے استعفیٰ دینے کو کہا تھا۔ دوبے نے میڈیا کے سامنے کہا کہ وہ جانچ ایجنسیوں کو تعاون دینے کو تیار ہیں۔ خارجی امور کے صحافی دوبے ہیں اور 2012 میں انہیں بینک کا انڈیپینڈنٹ ڈائریکٹر بنایا گیا تھا۔ آخر کب تک ایسے گھوٹالہ چلتے رہیں گے اور دیش کی معیشت کھوکھلی ہوتی جائے گی۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟