نواز شریف کا سیاسی مستقبل

ایک اہم فیصلہ میں پاکستان کے سپریم کورٹ نے سابق وزیر اعظم نواز شریف کو پاکستان مسلم لیگ (نواز) کی قیادت کرنے کے لئے نا اہل قرار دیا ہے۔ نواز شریف اس پارٹی کے بانی ہیں۔ پچھلے سال 28 جولائی کو عدالت نے نواز شریف کے خلاف لگے الزامات کی سماعت کرتے ہوئے انہیں پبلک عہدے پر رہنے کے لئے نااہل قرار دیا تھا۔ شریف کو کالا دھن جمع کرنے کے الزام میں قصوروار پایا گیا تھا۔ پنامہ پیپرس لیگ سے جڑے اس معاملہ میں فیصلہ آنے کے بعد انہیں وزیر اعظم کے عہدے سے استعفیٰ دینا پڑا تھا۔ عدالت کے مفصل فیصلہ میں کہا تھا کہ سماعت کے دوران نواز سے ان کی املاک اور آمدنی کے ذرائع کے بارے میں سوال کئے گئے تھے جس کے انہوں نے سیدھے اور واضح جواب نہیں دئے تھے۔ عدالت کا کہنا تھا دیش کے آئین کے مطابق کسی بے ایمان شخص کو دیش پر حکومت کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی لیکن شریف کی پارٹی نے پارلیمنٹ میں ایک قانون پاس کیا جس کی بنیاد پر عدالت نے نا اہل ٹھہرائے گئے شریف کو پارٹی کی قیادت کرنے کیلئے قابل بتا کر پارٹی کا صدر چن لیا گیا۔ بعد میں پاکستان کی بڑی اپوزیشن پارٹی نے الیکشن ریفارم قانون2017 کے نام کے اس قانون کی مخالفت کی تھی۔ اپوزیشن کی عرضی پر سماعت کرتے ہوئے پاکستان سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا جس شخص کو کسی بھی پبلک عہدے کے لئے نا اہل قراردیا جاتا ہے وہ کسی پارٹی کی قیادت نہیں کرسکتا۔ اپنے حکم میں چیف جسٹس نے لکھا کہ پارٹی صدر کے طور پر نا اہل بتائے جانے کے بعد نواز شریف پارٹی صدر رہتے ہوئے جو بھی قدم اٹھائے گئے یا حکم دئے گئے یا گائڈ لائنس جاری کی گئیں یا دستاویز جاری کئے گئے انہیں قانون کی نظر میں کبھی پاس نہیں مانا جائے گا۔ نواز نے ہمیشہ خود پر لگے کرپشن کے الزامات سے انکار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ انہیں اقتدار سے ہٹانے کے لئے ان کے خلاف سازش رچی جارہی ہے حالانکہ واقف کار عدالت سے ایسے ہی فیصلہ کی امیدکررہے تھے لیکن یہ بھی مانتے ہیں کہ اگلے مہینے ہونے والے پاک سینٹ (پارلیمانی چناؤ) کے پیش نظر اس کا وسیع اثر پڑ سکتا ہے۔ ڈر ہے کہ اس فیصلہ کے بعد دیش میں سیاسی عدم استحکام کا ماحول تیار ہوگا۔ ہوسکتا ہے چناؤ کی تاریخوں کو پیچھے ہٹادیا جائے اور نا اہل قرار دئے جانے کے بعد سے نواز شریف اپنے معاملہ کو پبلک ریلیوں میں یعنی جنتا کے سامنے لیکر گئے ہیں اور ایسا لگ رہا ہے کہ وہ کافی حد تک اپنے ووٹروں کو سمجھانے میں کامیاب رہے ہیں کہ انہیں تنظیمی سازشوں کا شکار بنایا جارہا ہے۔ ویسے اس سے پہلے بھی سیاستدانوں کو پبلک عہدوں پر رہنے کے لئے نا اہل قرار دیا گیا ہے لیکن یہ پہلی بار ہے کہ کسی نیتا کو سیاسی پارٹی کی لیڈر شپ کرنے کے نا اہل بتایا گیا ہے۔ یہ فیصلہ پاکستان کی سیاست کے لئے ایک بڑا دھکا ہے اور اس سے دیش میں پولرائزیشن بڑھے گا لیکن یہ بات طے ہے کہ اس کا فائدہ سابق کرکٹر عمران خاں کی پاکستان تحریک انصاف کو پہنچے گا۔ آگے دیکھیں کیا ہوتا ہے؟ نواز کی اب کوشش ہوگی کہ آنے والے انتخابات میں انہیں اکثریت حاصل ہو تاکہ ان کی پارٹی کو آئین کی جس دفعہ کے تحت نااہل قرار دیا گیا ہے اسے بدلنے کے لئے نیا قانون لا سکیں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟