دہشت گرد ی کسی ایک دیش کا مسئلہ نہیں یہ عالمی چنوتی بن گئی ہے

پچھلے دو گھنٹے میں تین ملکوں میں دہشت گردانہ حملوں نے یہ ثابت کردیا ہے کہ دنیا کا کوئی کونا دہشت گردی سے نہیں بچ سکا ہے۔ فرانس کے وسطی ساحلی شہر ماؤسرت کے مین ریلوے اسٹیشن پر ایتوارکو ایک حملہ آور نے دو لوگوں کو چاقو مار کر ہلاک کردیا۔ جوابی کارروائی میں حملہ آور بھی مارا گیا۔ اس آتنکی حملہ کو لون ولف نے انجام دیا۔ حملہ آور نے اللہ اکبر چلاتے ہوئے یہ حملہ کیا۔ دوپہر 1:45 بجے 30 سالہ حملہ آور نے ریلوے اسٹیشن کے اندر ایک خاتون کو چاقو سے گلا کاٹ کر مار ڈالا اور دوسری خاتون کے پیٹ میں چاقو گھونپ کرقتل کردیا۔ پچھلے دو سالوں میں فرانس میں کئی آتنکی حملے ہوچکے ہیں اور دیش پہلے سے ہی الرٹ کے موڈ میں ہے۔ ادھر کینیڈا کے مونٹریال میں ایک کار سوار نے پولیس افسر کو ٹکر مارنے کے بعد چاقو سے مار ڈالا۔ اس کے کچھ ہی گھنٹے بعد ایک وین نے پیدل مسافروں کو روند ڈالا جس میں چار لوگ زخمی ہوگئے۔ ایڈمنٹن پولیس چیف کا کہنا ہے یہ دونوں واقعات ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ ہم آتنکی حملے کے پہلو سے بھی معاملے کی جانچ کررہے ہیں۔ سب سے خطرناک حملہ امریکی شہر لاس ویگس میں تب ہوا جب ایک موسیقی پروگرام میں ایک شخص نے اندھادھند فائرننگ کرکے 58 لوگوں کو موت کی نیند سلا دیا اور 515 لوگ زخمی ہوگئے۔ یہ جدید امریکی تاریخ کی سب سے بڑی فائرننگ کی واردات مانی جارہی ہے۔ ایتوار کو ہوئے اس حملہ میں کسی ہندوستانی شہری کے زخمی ہونے کی خبر نہیں ہے۔ حملہ آور کی پہچان 64 سالہ اسٹیفن فیڈروک کی شکل میں ہوئی ہے۔ وہ مقامی باشندہ ہے۔ بین الاقوامی وقت کے مطابق پیر کی صبح 5 بجے حملہ آور موسیقی پروگرام کے لئے بنے ہال میڈلیوے کیسینو میں گھس گیا اور 32 ویں منزل سے تابڑ توڑ فائرننگ شروع کردی۔ جس وقت گولی باری کی گئی سنگر جانسن ایلڈن کی پرفارمینس چل رہی تھی اور 22 ہزار لوگ موجود تھے۔ عینی شاہدین نے بتایا کہ حملہ آور 10 منٹ تک مسلسل فائرننگ کرتا رہا۔ اس کے پاس 7-8 رائفلیں تھیں اور 32 ویں منزل میں ایک کمرے کی کھڑکی سے وہ نیچے چل رہے کنسرٹ پر فائرنگ کرتا رہا۔ اونچائی سے فائرنگ کے سبب نیچے موسیقی پروگرام دیکھ رہے لوگ اتنی تعداد میں مارے گئے و زخمی ہوئے۔ حملہ کی ذمہ داری آئی ایس نے لی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ حملہ آور نے کچھ وقت پہلے ہی اسلام مذہب اپنایا تھا لیکن ایس بی آئی نے آئی ایس کے دعوے کو مسترد کردیا ہے۔ ایس بی آئی کا کہنا ہے لاس ویگس اٹیک کا کسی بین الاقوامی تنظیم سے تعلق نہیں ہے۔حملہ آور اسٹیفن فیڈروک نے واردات کو اکیلے ہی انجام دیا۔ وہ امریکہ کا ہی باشندہ ہے حالانکہ اس خون خرابے کو اکیلے شخص نے انجام دیا، لیکن اس کی فائرننگ میں 500 سے اوپر لوگ زخمی ہونے سے واردات کی حیوانیت کا پتا چلتا ہے۔ امریکی پولیس فوری کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکی اور ثبوتوں کی کمی نے اس کے لئے آتنکی تنظیم آئی ایس کے اس دعوے پر یقین کرنا مشکل ہورہا ہے کہ لاس ویگس میں بے قصور لوگوں پر قہر ڈھانے کا کام اس کے اپنے ہی آدمی نے کیا ہے کیونکہ آئی ایس کہیں نہ کہیں واردات میں شامل شخص کو اپنا حمایتی بتا کر دہشت پھیلانے کی کوشش کرتا رہتا ہے اس لئے فی الحال یہ کہنا مشکل ہے کہ لاس ویگس قتل عام پر اس نے جو دعوی کیا ہے اس میں کتنا دم ہے یہ ہمارے لئے سمجھنا مشکل ہے کہ آخر لاس ویگس جیسے شہر میں کوئی شخص 8-8 رائفلیں ، گولہ بارود کے ذخیرے کے ساتھ سیاحوں سے گلزار رہے والے ہوٹل میں ٹھہرنے میں کیسے کامیاب ہوگیا؟ اتنے لوگوں کے مرنے و زخمی ہونے سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس کے پاس کتنی زیادہ مارنے کی صلاحیت والے ہتھیار رہے ہوں گے؟ پولیس کارروائی اور راحت رسانی کو متاثر کرنے کے مقصد سے آس پاس کی کئی جگہوں پر ایسی ہی واردات کی افواہ پھیلانے کی کوششیں بھی ہوئی ہے۔ مانچسٹر کو شروعات مانا جائے تو لاس ویگس کی واردات کو دہشت گردی کے نئے چہرے کے طور پر دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اس نے ایک بار پھر عالمی برادری کو آگاہ کیا ہے کہ آتنک واد کہیں بھی اور کبھی بھی اور کسی بھی شکل میں آ سکتا ہے۔ جس طرح پچھلے کچھ عرصے میں کبھی پیرس کے فٹبال میچ، فرانس کے بین الاقوامی حصوں اورفلوریڈا کے نائٹ کلب میں جڑے جماوڑے کونشانہ بنانے والی واردات سامنے آئیں ہیں اس نے یہ سوچنے پر مجبور کردیا ہے کہ دہشت گردی کا مسئلہ اب عالمی ہوچکا ہے ۔ سوچنا ہوگا کہ دہشت گردی جب ہر دن اپنا چہرہ بدل رہی ہے تب ہم نے اپنے اوزار کتنے بدلے ہیں؟ بھارت جو بات بار بار کہتا رہا ہے آتنک واد کسی ایک دیش کا مسئلہ نہیں رہا ہے اس نے عالمی صورت اختیار کرلی ہے ان وارداتوں سے ثابت ہوتا ہے۔ اس کا مقابلہ تبھی کیا جاسکتا ہے جب تمام دیش مل کر ان دہشت گردوں کے مقابلوں کے لئے دور رس موثر حکمت عملی بنائیں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟