ہندو مخالف ساکھ کوتوڑنے میں لگے راہل گاندھی

گجرات میں راجیہ سبھا میں ملی جیت سے خوش کانگریس نائب صدر راہل گاندھی نے آنے والے چناؤ کے پیش نظر مشن گجرات ابھیان کی شروعات کردی ہے۔ کانگریس نے راہل کے اس ابھیان کو نو وسرجن یاترا کا نام دیا ہے۔اس کا مقصد آنے والے دنوں میں گجرات میں نئی شروعات کرنا ہے۔ جہاں تک ایک طرف راہل عوامی رابطہ مہم کے ذریعے عام لوگوں تک پہنچ بنا رہے ہیں وہیں کانگریس نے سوشل میڈیا پر پی ایم مودی اور امت شاہ کے گجرات میں ان کے ہی انداز میں جوابی کمپین شروع کردی ہے جس کا اثر ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ راہل گاندھی گجرات میں 12 دن کے جن سمپرک ابھیان پر ہیں، جن میں وہ تین تین دن کے چار مرحلہ میں جن سمپرک کررہے ہیں۔ کانگریس پارٹی اب کی بار گجرات میں اپنی پوری طاقت جھونک رہی ہے۔ گجرات کانگریس کے لئے کتنا اہم ہوگیا ہے اس کا اندازہ اسی سے لگایا جاسکتا ہے کہ جہاں پچھلے 20 برسوں میں کانگریس کا کوئی بڑا نیتا مسلسل دو دن گجرات میں نہیں رہا وہیں راہل 12 دن لگا رہے ہیں۔ مودی کی سیاسی زمین پر راہل انہی کے انداز میں نہ صرف داؤ کھیلنے کی کوشش کررہے ہیں بلکہ کچھ حد تک کامیاب ہوتے بھی دکھائی دے رہے ہیں۔ سال2012ء کے گجرات چناؤ کو مودی نے راجیہ کا چناؤ نہ بننے دے کر اسے یوپی اے سرکار کی خامیوں کو گھیرتے ہوئے مرکزی بنا دیا تھا۔ اب راہل و کانگریس بھی اسی پالیسی پر چل کر مودی سرکار کو گھیر رہی ہے۔ حالانکہ کانگریس جہاں نوٹ بندی اور جی ایس ٹی جیسے اشوز کو لیکر سرکار کو گھیر رہی ہے وہیں اس نے سب سے پختہ نشانہ بنایا ہے مودی کے گجرات وکاس کے ماڈل کو۔ وکاس گاڈوتھوچھے(وکاس پاگل ہوا) اور ہارا چھتر گیا (ارے بیوقوف بنا رہا ہے) جیسے نعروں کو لیکر کانگریس نے گجرات ماڈل کی ہوا نکالنے کی کافی کوشش کی ہے۔ اتنا ہی نہیں اب کانگریس نیا نعرہ اتارنے کی تیاری میں ہے۔ پرگتی بین کھوایا (پرگتی بہن کھو گئی) کانگریس کے ایک اہم حکمت عملی ساز کے مطابق کانگریس گجرات میں وکاس کے نام پر لوگوں کو چھلاوے میں رکھنے کی بی جے پی کی پول کھول رہی ہے۔ اسی کے ساتھ وہاں پارٹی نوجوانوں و خواتین پر خاص توجہ دے رہی ہے۔ راہل گاندھی اپنے گجرات دورہ پر سماج کے مختلف طبقوں تک پہنچنے کے ساتھ ہی مندروں میں بھی جا رہے ہیں۔ ان کے دورہ کی شروعات دوارکا دھیش مندر میں پوجا کے ساتھ ہوئی۔ راہل کے مندروں میں جانے کی اہمیت اس لئے بڑھ جاتی ہے کیونکہ کانگریس پر بی جے پی ۔ آر ایس ایس کی طرف سے ہندو مخالف ہونے اور اقلیتوں کو خوش کرنے والی پارٹی ہونے کا الزام لگایا جاتا ہے۔ گجرات میں 2012 میں ہوئے پچھلے اسمبلی چناؤ میں نریندر مودی کی رہنمائی میں بی جے پی نے کانگریس کو اقلیتوں کی ہمدرد والی پارٹی کے طور پر پیش کرنے میں کوئی کثر ہیں چھوڑی تھی۔ بہت سے واقف کار راہل کے مندروں میں جانے کو اسی الزام کے توڑ کی حکمت عملی کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ حالانکہ کانگریس کے لئے یہ سب کھیل گجرات تک ہی محدود نہیں ہے پارٹی پورے دیش میں بی جے پی آر ایس ایس کے الزامات کا توڑ کرنا چاہتی ہے۔ کانگریس کی لیڈر شپ پچھلے کچھ عرصے سے پارٹی پر ہندو مخالف ہونے کا ٹھپہ لگانے کی بی جے پی ۔ آر ایس ایس کی کوشش کو لیکر فکر مند ہے اور ہونا بھی چاہئے۔ یہ سمجھنا اہم ہے کہ مذہبی اورسیکولر ہونا ایک چیز ہے اور مذہبی طور پر سیاسی ووٹ بینک کی بنیاد پر فرقہ واریت ہونا اس سے پوری طرح الگ ہے۔ اسی وجہ سے ایک طرف پارٹی مودی سرکار کی خراب اقتصادی پالیسیوں کو لیکر سرکار کو گھیر رہی ہے تو دوسری طرف بی جے پی۔ آر ایس ایس کے ہندو اشو کو لیکر ہوشیاری سے قدم بڑھا رہی ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟