سکڑتی آئی ایس: راجدھانی رقہ بھی آزاد ہوا

دنیا بھر میں دہشت کی علامت بن چکی اسلامک اسٹیٹ اب سکڑتی جارہی ہے۔ شام اور عراق کے تنظیم کے سرغناؤں کو بھگایا جاچکا ہے جس کے بعد وہ نئی زمین تلاشنے میں لگ گئے ہیں۔ امریکی حمایتی جنگ بازوں نے اعلان کیا ہے کہ شام کے رقہ شہر کو آزاد کرا لیا گیا ہے۔ یہ آئی ایس کا گڑ مانا جاتا تھا۔ اس آتنکی تنظیم نے پچھلے تین سال سے یہاں اپنا اڈہ جمایاہوا تھا۔ سریائی ڈیموکریٹک فورس کے ترجمان تاللسلو نے اسے ایک تاریخی کارنامہ قراردیا۔ ایچ ڈی ایف کرد اور عرب جنگ بازوں کا اتحاد ہے۔ اس جنگ میں کرد خاتون فرنٹ پر آکر آئی ایس آتنک وادیوں سے مورچہ لے رہی تھیں۔ رقہ کی سڑکوں پر فوج کے جوان اور عام لوگوں نے آئی ایس سے چھٹکارا پانے پر جشن منایا۔ آئی ایس نے رقہ کو اپنی راجدھانی بنا رکھا تھا۔ چارسال سے اس کا قبضہ تھا۔ اس کے علاوہ دیہوئٹرج جوٹ شہر میں آئی ایس کا قبضہ ابھی بھی ہے۔ یہ موصل اور رقہ کو جوڑتا ہے۔ یہاں پر روس لگاتار حملے کررہا ہے لیکن ابھی آئی ایس کے پاس شام کے تین سب سے بڑے تیل کارخانے ہیں ان میں13500 بیرل تیل یومیہ نکالنے کی صلاحیت ہے۔ یمادن شہر آئی ایس کا انتظامی مرکز ہے۔ فرات ندی کے کنارے بسے شہروں پر ابھی بھی آئی ایس کا قبضہ ہے یہ فوجی طور پر اہم ہے۔ یہیں سے وہ شام اور عراق میں لمبی آتنکی سرگرمیوں کو انجام دیتا ہے۔ ویسے بتادیں کہ آئی ایس کا دائرہ 1 لاکھ مربع کلو میٹر علاقے سے سمٹ کر 20 ہزار مربع کلو میٹر تک محدود رہ گیا ہے۔ ان ڈھائی برسوں میں محصول کے تئیں ماہانہ 527 کروڑ روپے سے گھٹ کر 100 کروڑ رہ گئی ہے۔ 2015 میں آئی ایس کا شام اور عراق کی 126 جگہوں پر قبضہ تھا ان میں سے86 علاقوں کو آزاد کرا لیا گیا ہے۔ آئی ایس کے ہاتھوں سے رقہ ، موصل ،فلوجہ، رمادی ،کوبانی، تکرت الاظہر جیسے دس بڑے شہروں کو بھی آزاد کرا لیا گیا ہے۔ خبر ہے کہ آئی ایس اب لیبیا کو اپنا عارضی گڑھ بانے کی تیاری میں ہے۔ ماہ ستمبر میں لیبیا کے پڑوسی دیش تیونس اور مصر میں آئی ایس کے چار سیل بے نقاب کئے گئے ہیں۔کلیرین پروجیکٹ کے ماہر رین میجر کا کہنا ہے کہ یہ مشکل ہے کے آئی ایس کا اگلا ٹھکانا کہاں ہوگا؟ اگر ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ شام اور عراق سے بھگائے جانے کے بعد وہ لیبیا کی طرف جا سکتے ہیں۔ فلپین، ملیشیا، یمن اور پاکستان و افغانستان میں بھی آئی ایس کی پہنچ بن چکی ہے۔ لیکن تشویش کا موضوع یہ ہے کہ آئی ایس کے سکڑنے کے باوجود دنیا بھر میں ان سے جڑی تنظیمیں آتنکی حملہ کرنے میں کامیاب ہورہی ہیں۔ بغدادی کے مرنے کی کئی بار خبریں آئی ہیں لیکن وہ غلط ثابت ہوئی ہیں۔ بغدادی آج بھی زندہ ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟