جج جگدیپ سنگھ لوہان آپ پر پورے دیش کو فخر ہے

ڈیرہ چیف بابا رام رحیم کو سی بی آئی کی اسپیشل عدالت میں جنسی استحصال معاملہ میں قصوروار ٹھہراتے ہوئے بدفعلی کے دوالگ الگ معاملوں میں 10-10 سال کی سزا سنا کر ایک تاریخی اور دور رس فیصلہ دیا ہے۔ اب بلاتکاری باباکو 20 سال کی قید بھگتنی پڑے گی ۔ ساتھ ہی قصور وار پر 30 لاکھ روپے کا بھی جرمانہ کیا گیا ہے۔ اس میں قصوروار کو 14-14 لاکھ روپے متاثرہ کو دینے ہوں گے جبکہ 2 لاکھ روپے عدالت میں جمع کرانے ہوں گے۔ موجودہ معاملوں میں جو بھی سزا دی گئی ہے وہ نربھیاکانڈ سے پہلے کے ریپ قانون کے حساب سے دی گئی ہے۔ نربھیا کانڈ کے بعد ریپ قانون میں تبدیلی ہوئی ہے اور وہ اس کے بعد کے مقدمے پر ہی نئی اینٹی ریپ قانون لاگوں ہوگا،پہلے کے معاملہ میں نہیں۔ پرانے آبروریزی انسداد قانون کے حساب سے بابا رام رحیم کو سزا دی گئی اور اس سزا کے خلاف وہ ہائی کورٹ میں 60 دنوں کے اندرا پیل کرسکتا ہے۔ اس کے بعد سپریم کورٹ کا متبادل ہوگا۔ سادھوی جنسی استحصال معاملہ میں رام رحیم کو سزا سنانے والے سی بی آئی جج جگدیپ سنگھ لوہان نے جتنا ہمت افزاء اور تاریخی فیصلہ سنایا ہے، اس پرقصوروار کے بھکتوں کو چھوڑ کر جہاں پورا دیش فخر محسوس کررہا ہے وہیں ان کے آبائی گاؤں راج پورہ کا سینا فخر سے پھولا ہوا ہے۔ راجپورہ مینڈ گاؤں کے ایک تعلیمی پریوار میں پیدا ہوئے سی بی آئی جج جگدیپ سنگھ لوہان نے ابتدائی تعلیم گاؤں کے سرکاری اسکول میں ہی حاصل کی تھی۔ جج صاحب نہ تو کسی بہکاوے میں آئے اور نہ ہی کسی دباؤ میں۔ ان کا یہ فیصلہ ہر آبروریز کے لئے ایک مثال ہوگی۔ غور طلب ہے کہ رام رحیم کو سزا سنانے والے جج جگدیپ کو ان کی ایماندار اور سخت ساکھ کیلئے جانا جاتا ہے۔ اس ہائی پروفائل معاملہ میں بھی ان پر ڈیرے کے حمایتیوں سمیت سیاسی حلقوں سے بھی دباؤ تھا لیکن وہ بہکے نہیں اور بابا کو سلاخوں کے پیچھے پہنچادیا۔ بدفعلی کرنے والے بابا رام رحیم کے ساتھ فیصلہ کے دن ساتھ رہنے والی خاتون ہنی پریت ان کی سب سے قریبی مانی جاتی ہے۔ دنیا کو بابا اسے اپنی گود لی بیٹی بتاتا ہے لیکن اس کے شوہر وشواس گپتا نے 2011ء میں ہائی کورٹ میں دائر اپنی عرضی میں کہا تھا کہ ڈیرہ چیف بھلے ہی اس کی بیوی کو بیٹی کہتے ہوں لیکن اس کے ساتھ ڈیرہ پرمکھ کے جسمانی رشتے ہیں۔ ہنی پریت کا اصلی نام پرینکا ہے۔ وہ بدھوار کو ڈیرہ پرمکھ کو قصوروار قرار دئے جانے کے بعد اس کے ساتھ ہیلی کاپٹر سے روہتک آئی تھی جہاں سوناریہ جیل میں بابا کو رکھا گیا ہے۔ خبر یہ بھی ہے کہ سی بی آئی جج جگدیپ سنگھ کے ذریعے ڈیرہ چیف کو بدفعلی کا مجرم ماننے کے بعد سکیورٹی گارڈوں نے اسے جیل لے جانے سے منع کردیا تھا۔ ان میں 6 سرکاری اور 2 پرائیویٹ سکیورٹی گارڈ ہیں۔ رام رحیم کی سکیورٹی میں تعینات ہریانہ پولیس کے 5 جوان بھی پوری طرح اس کے رنگ میں رنگ چکے تھے۔ ہمیشہ ساتھ رہنے والے ان جوانوں نے پہلے ڈیرہ چیف کو پنچکولہ میں واقع عدالت میں پیشی پر جانے سے روکنا چاہا اور پھر فیصلہ آنے پر اسے بھگا لے جانے کی سازش بھی رچ ڈالی۔ رام رحیم کو پنچکولہ کورٹ سے بھگانے کی کوشش میں 5 پولیس ملازمین اور ڈیرہ چیف کے 2 پرائیویٹ گارڈوں پر ملکی بغاوت کا کیس درج کیا گیا ہے۔ تشد د میں ہریانہ پولیس کے رول پر چل رہی ابھی تک کی جانچ کے مطابق تشدد کی شروعات بھی رام رحیم کی سکیورٹی میں تعینات رہے انہی سرکاری کمانڈو نے کی تھی۔ پنچکولہ کے پولیس کمشنر اے ایس چاولہ نے بتایا کہ ان لوگوں نے پولیس والوں سے ہاتھا پائی کی اور ناکام رہنے پر نعرے لگائے کہ ہندوستان کو دنیا کے نقشے سے مٹا دیں گے، آگ لگادیں گے۔ پتہ چلا ہے فیصلہ آنے سے دو تین دن پہلے ہی رام رحیم کے پیرو کاروں نے شہر کو دہلانے کی سازش تیار کرنا شروع کردی تھی۔ موٹر سائیکلوں کی ٹنکیاں بھرواکر کین میں پٹرول اکٹھا کیا گیا، کٹے پھٹے ٹائروں، اینٹ پتھروں اور خالی بوتلوں کو جمع کیا گیا۔ وہیں بھاری تعداد میں ہتھیار اکٹھے کئے گئے۔ جمعہ کو جیسے ہی فیصلہ آیا تو 9 افراد نے سازش کو عملی جامہ پہنانا شروع کردیا۔ شکر ہے کہ یہ بہت زیادہ نقصان نہیں کرسکے۔ فیصلہ کے بعد ہوئے تشدد میں 35 سے زیادہ لوگوں کی موت ہوگئی۔ تشدد میں مارے جانے والوں کے سوال پر ہریانہ کے ایڈیشنل چیف سکریٹری داخلہ رامنواس نے بتایا کے مرنے والوں میں سبھی شرپسند ہیں اور اس میں کوئی بھی عام آدمی نہیں ہے۔رام نواس بتاتے ہیں انہوں نے پنچکولہ میں عام شہریوں کو کسی طرح کا نقصان نہیں ہونے دیا اور میڈیا کے لئے دکھ ہے کیونکہ ان کی گاڑیاں جلائی گئیں۔ پولیس فائرننگ کی بات کرتے ہوئے ہوم سکریٹری نے بتایا پولیس فائرننگ کے بعد شرپسندوں پر قابو پایاگیا ورنہ پورا پنچکولہ تشد د کا اکھاڑہ بن جاتا۔ وہ کہتے ہیں کافی پراپرٹی کا نقصان بچایا ہے اور جو نقصان ہوا ہے اس نقصان کی بھرپائی ڈیرہ سے کی جائے گی۔ میڈیا کوریج کی بات کریں تو عام طور پر مقامی رپورٹر سرکار کے دباؤ میں مجبوراً جھک جاتے ہیں لیکن اے بی وی پی کے پنجاب وہریانہ کے بیورو چیف جگوندر پٹیال نے شاندار رپورٹنگ کر بابا رام رحیم اور ہریانہ سرکار کے چہرے کو بے نقاب کیا۔ جس کی ہمت دہلی کے بڑے بڑے صحافی نہیں کرپائے۔ فائرننگ اور آگ زنی کے درمیان پٹیال نے جان ہتھیلی پر رکھ کر جس طرح بابا کانڈ کے فیصلے کی رپورٹنگ کی ، جس پر دیش کے تمام میڈیا کو فخر ہے۔ ہم جگوندر پٹیال کو بھی سلام کرتے ہیں لیکن سب سے زیادہ تعریف سی بی آئی جج جگدیپ سنگھ لوہان کی کرنی ہوگی۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟