صرف4 مہینے میں کیجریوال نے بازی پلٹ دی

چار ماہ پہلے ہوئے ایم سی ڈی چناؤ میں امید کے مطابق اچھی کارکردگی نہ کرپانے والی عام آدمی پارٹی نے بواناضمنی اسمبلی چناؤ میں شاندار جیت حاصل کر بازی پلٹ دی۔ پچھلے کچھ چناؤ میں جیت سے دور رہی عام آدمی پارٹی نے پوزیٹو کمپین اور ترقی کے اشو پر ہوئے اس چناؤ کے بعد پارٹی کے ورکروں میں جوش بھرنا فطری ہی ہے۔ بوانا میں بی جے پی کو اب تک کی سب سے بڑی ہار کا منہ دیکھنا پڑا ہے۔ 1998ء سے لیکر اب تک کبھی بھی بی جے پی کا ووٹ شیئر 30 فیصدی سے کم نہیں رہا۔ بوانا ضمنی چناؤ میں بی جے پی کے روایتی ووٹر ٹوٹ گئے اور بی جے پی کا ووٹ فیصد گر کر 27.2 فیصدی رہ گیا۔ یہ عالم تب ہے، جب قریب چار مہینے پہلے ہی بھاجپا نے ایم سی ڈی چناؤ جیتا تھا اور اس نے 36.18 فیصد ووٹ حاصل کئے تھے۔ کچھ مہینوں کے اندر ہی بی جے پی کا ووٹ فیصد اس کے ہاتھوں سے کھس گیا۔ دہلی بی جے پی پردھان منوج تیواری نے کہاکہ پردھان ہونے کے ناطے وہ ہار کی ذمہ داری لیتے ہیں۔ بوانا ضمنی چناؤ میں عاپ امیدوار رام چندر نے بی جے پی کے وید پرکاش کو 24052 ووٹوں کے بڑے فرق سے کراری شکست دی۔ کانگریس پچھلے کئی چناؤ کی طرح اس بار بھی تیسرے نمبر پر رہی۔ 2015ء کے اسمبلی چناؤ میں کانگریس کو 7.87 فیصد ووٹ ملے تھے۔ بوانا میں یہ ووٹ شیئر بڑھ کر 24.21 فیصدی ہوگیا یہ کانگریس کے لئے اچھا اشارہ مانا جاسکتا ہے۔ لیکن سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ آخر چار مہینے میں ایسے کونسے سمی کرن بنے کہ عاپ نے بازی اپنے حق میں کی اور شاندار اکثریت سے جیت حاصل کی۔ دراصل جنتا نے اس چناؤ کے ذریعے تھوڑ پھوڑ کی سیاست کو کرارا جواب دیا۔ عاپ کے ٹکٹ پر 2015 میں جیت حاصل کرنے والے وید پرکاش نے استعفیٰ دیکر بھاجپا میں جانا لوگوں کو پسند نہیں آیا۔ پھر وزیر اعلی اروند کیجریوال کا جی جان سے بوانا کمپین میں جٹنا بھی رنگ لایا۔ عاپ کا پوزیٹو کمپین و وکاس کے اشو پر چناؤ لڑنا پارٹی کے حق میں گیا۔ بوانا چناؤ میں نتیجوں کا ویسے عاپ سرکار پر کوئی اثر نہیں پڑا، کیونکہ پارٹی کے65 ممبر اسمبلی ہیں پھر بھی عاپ کیلئے یہ جیت بہت ضروری تھی۔ پنجاب ، گووا کے بعد دہلی میں راجوری گارڈن ضمنی چناؤ اور اس کے بعد ایم سی ڈی چناؤ میں پارٹی کو کامیابی نہیں ملی تھی۔ ورکروں کے حوصلہ پر برا اثر پڑا۔ سابق وزیر کپل مشرا نے بھی کیجریوال سرکار کے خلاف مورچہ کھول دیا تھا۔ دعوے کئے جارہے تھے کہ کئی ممبر اسمبلی ناراض ہیں اور بوانا چناؤ کے بعد وہ بھی کوئی بڑا قدم اٹھا سکتے ہیں۔ بھاجپا ہائی کمان کو محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے کہ پارٹی کیوں گری۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟