اگست کا مہینہ بھاجپا پر بھاری رہا

سوا تین سال میں ماہ اگست2017ء شاید پہلا مہینہ ہوگا جب ٹی وی چینلوں پر بھاجپا کے ترجمان ٹھنڈے پڑتے دکھائی دئے تو کئی بار تو نظر نہیں آئے۔ نریندر مودی کے پی ایم بننے کے بعد سے اب تک کے وقفہ میں صرف دو مہینے حکمراں فریق کے لئے اچھے نہیں رہے۔ فروری 2015 اور نومبر 2015 جب پارٹی دہلی اور بہار کے اسمبلی چناؤ بری طرح ہاری۔ مگر جلد ہی ان دونوں شکستوں کو برے سپنے کی طرح بھلا کر بی جے پی تیز رفتار سے آگے بڑھی۔ پہلی نظر میں غیر مقبول دکھائی دینے والے نوٹ بندی کے فیصلہ کو مودی کے کرشمے میں بدل دیا گیا اور سرجیکل اسٹرائک کا سرحد پار جانے کا کیا اثر ہوا، لیکن دیش کے اندر پارٹی کے اندر حوصلہ ضرور بڑھا ۔ یہ الگ باگ ہے کہ نوٹ بندی کی تفاصیل دیش کے سامنے آج تک نہیں رکھی گئی۔ 2017 میں یوپی ، اتراکھنڈ، گووا، منی پور میں پارٹی اقتدار میں آئی اور اب 2019 کی جیت پکی مان کر 2024 کے چناؤ پربھی بحث ہونے لگی ہے۔ پھر آیا اگست کا مہینہ ۔ پہلا جھٹکا پارٹی کو ہریانہ میں لگا جب پارٹی کے پردھان سبھاش برالا کے لڑکے وکاس برالا نے خاصی کرکری کرائی، آخر ان کی گرفتاری ہوئی لیکن ساکھ کا جتنا نقصان ہونا تھا وہ تو ہوہی گیا۔ ابھی مشکل سے دو دن گزرے ہوں گے کہ گورکھپور کے سرکاری ہسپتال میں بچوں کی خوفناک موت کی خبر آئی، اس کے بعد سرکار کو کافی فضیحت کا سامنا کرنا پڑا اور بچوں کے مرنے کا سلسلہ ابھی رکا نہیں۔ گورکھپور میں بچوں کی موت پہلے بھی ہوتی رہی ہے لیکن اس بار بی جے پی ان الزامات کو جھٹلا نہیں سکی اس کا رویہ اس معاملہ میں غیر ذمہ دارانہ اور غیر سنجیدہ تھا۔ بی جے پی کو تیسرا بڑا جھٹکا اگست کے مہینے میں پہلے 10 دن کے اندر ہی لگا جب پارٹی نے گجرات سے کانگریس کے نیتااحمد پٹیل کو راجیہ سبھا میں جانے سے روکنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگادیا اور وہ اس میں ناکام رہی۔ یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں تھی کہ بی جے پی صدر امت شاہ اور اسمرتی ایرانی کو جتانے سے زیادہ احمد پٹیل کو ہرانے کے لئے زور لگا رہی تھی۔ بھاری ہنگامے اور دیر رات تک چلے ڈرامہ کے بعد چناؤ کمیشن نے احمد پٹیل کو ونر (کامیاب) اعلان کردیا اور بی جے پی کو منہ کی کھانی پڑی۔ اگست کے مہینے نے نہ جانے کو بی جے پی کی گاڑی پٹری سے اتارنے کی ٹھان لی تھی۔ کھتولی ریل حادثہ اور اس کے بعد سامنے آئے ثبوتوں نے پارٹی کے ترجمانوں کو مصیبت میں ڈال دیا۔ پتہ چلا کہ پٹری پر کام چل رہا تھا اور ڈرائیور کو اس کی خبر نہیں دی گئی تھی۔ شیو سینا سے بی جے پی میں آئے سریش پربھو نے ٹوئٹر کے ذریعے اچھی کارکردگی کی جو ساکھ بنائی تھی وہ پوری طرح سے ملیا میٹ ہوگئی جب چار دنوں کے اندر اترپردیش کے اوریہ میں کیفیات ایکسپریس کے 10 ڈبے پٹری سے اتر گئے۔ ریلوے بورڈ کے چیئرمین اے کے متل کے استعفیٰ دینے کے بعد سریش پربھو کو بھی استعفیٰ دینے کی پیشکش کرنی پڑی۔ انہوں نے استعفیٰ تو نہیں دیا لیکن لمبی چوڑی بھومیکا کے ساتھ استعفے کی پیشکش کی جس پر پی ایم مودی نے کہا ابھی انتظار کیجئے۔ لیکن بلٹ ٹرین چلانے کا دعوی کرنے والی سرکار کی ساکھ پر جتنا بڑا دھبہ لگناتھا وہ تو لگ ہی گیا ۔ پھر آیا رام رحیم کا معاملہ۔ رام رحیم کو قصوروار قرار دئے جانے سے پہلے جمع ہوئی بھیڑ اور اس کے بعد بھڑکے تشدد اور منوہر کھٹر سرکار کا رویہ اور بھاری دباؤ کے باوجود لا اینڈ آرڈر بگڑنے سے بھاجپا کی ساکھ کو بھاری دھکا لگا۔ بابا کا آشیرواد پانے کی خواہشمند تقریباً سبھی سیاسی پارٹیاں ہیں لیکن پچھلے اسمبلی چناؤ میں بابا نے بی جے پی کو اعلانیہ طور پر حمایت دی تھی ، اس لئے بی جے پی آسانی سے پنڈ نہیں چھڑا پارہی ہے۔ مہینے کا آخر ہوتے ہوتے سیاسی طور پر پٹنہ کے گاندھی میدان میں 18 اپوزیشن پارٹیوں کی مہا ریلی ایک ایسا واقعہ ہے جس نے بی جے پی کو تھوڑا فکر مند ضرور کیا ہوگا اتنا ہی نہیں دہلی اگلے چناؤ میں کیجریوال کے صفائے کا دعوی کرنے والی بی جے پی کو بوانا اسمبلی کے ضمنی چناؤ میں ہارکا منہ دیکھنا پڑا ہے۔اسی مہینے کئی ایسے واقعات ہوئے ہیں جس سے بی جے پی کی ساکھ کو گہرا دھکا پہنچا ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟