ٹی وی بحث پرپاک مہمان کو بے عزت ہونے کے عوض میں ڈالر

ٹی وی پراپنی ریٹنگ بڑھانے کیلئے کچھ چینل کیا کیا نہیں کررہے ہیں؟ لمبی لمبی بحث کرائی جاتی ہے، بیرونی ممالک سے مہمان بلا کر تو تو مے مے کروائی جاتی ہے۔ ناظرین نے کچھ انگریزی چینلوں پر کشمیرجیسے برننگ اشوز پر پینل بحث سنی ہوگی اس میں ماہرین بلائے جاتے ہیں۔ ٹی وی پر اکثر پاکستان بنام بھارت بحث ہوتی ہے۔ اس کے پیچھے اصل کہانی کیا ہے یہ جانکار میں بھی چونک گیا۔ بھارت بنام پاکستان کی تلخ بحث کے پیچھے اصل سچ کیا ہے؟ جی ہیں؟ کو مت دیکھے بلکہ ٹی وی میں بحث کے پیچھے دھندے کے سچ کو سمجھئے جو منصوبہ بند طریقے سے لوگوں کے جذبات سے کھلواڑ کررہا ہے اور دو دیشوں کے لوگوں کے درمیان دیش بھگتی کو مشتعل بھی۔ٹی وی چینل پر بیٹھا اینکراور پاکستانی نمائندے کے درمیان گرمجوشی سے بھری اور کراری بحث کے پیچھے پورا کھیل ٹی آرپی ریٹنگ اور روپے کا ہے۔ چونکئے مت بلکہ اس سے آگے کے حالات کو بھی سمجھئے جہاں پاکستان گیسٹ کو جو کڑوی کڑوی باتیں سنائی جاتی ہیں اس کے عوض میں اسے باقاعدہ ڈالر میں رقم ادا کی جاتی ہے بدلے میں اسے بحث میں تمام طرح کے الزامات کو سہنا پڑتا ہے۔ ایسے ہی ایک گیسٹ ہیں پاکستان کی جانب سے بھارتیہ نیوز چینل پر دکھائی دینے والے سید طارق پیر زادہ۔ مشہور ٹی وی جرنلسٹ اور مدیر راجدیپ سرڈیسائی نے اپنے انگریزی بلاگ میں ٹی وی کی بحث کے ایک ایسے سچ کو بے نقاب کیا جس کے پاس ٹی وی کی سنجیدہ نیشنلسٹ کی بحث کے پیچھے دوبئی کے ان کے اکاؤنٹ میں جا رہی رقم اور ٹی وی کی ریٹنگ چمکانا ہے۔ راجدیپ کہتے ہیں ہاں میں نے واضح طور سے پیر زادہ کو پروگرام ختم ہونے کے وقت ہنستے ہوئے دیکھا تھا۔ مجھے اس پر بالکل تعجب نہیں ہوا۔ وہ کل سے آدھا درجن ہندوستانی نیوز چینلوں پر اسکائپ کے ذریعے سے دکھائی دے رہے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر امریکی ڈالرمیں انہیں اچھے پیسے دیتے ہیں۔ مجھے دوبئی میں کھولے گئے بینک کھاتے کے بارے میں بتایا گیا ہے۔ یہ کس طرح سے بیحد کارگر کاروباری ماڈل کے طور پر ہیں۔ میں اس کے رد عمل جس میں جارحیت اور بے عزتی سننے کے لئے اور پھراس پر جم کر چلانے کے لئے باقاعدہ پیسہ دیا جاتا ہے۔ جو لوگ اسے زیادہ پیسہ دیتے ہیں وہ خود زیادہ بڑے راشٹروادی کے طور پر پہچانے جاتے ہیں۔ بھگوان اس جمہوریہ کو ان لوگوں سے بچائے جن کے پراکسی راشٹرواد کو ٹی آر پی کے لئے چلایا جارہا ہے۔ پچھلی رات میں نے پاکستان کے بارے میں ایک واقف چہرے کو ہندوستانی چینل پر دیکھا۔ خودساختہ سیاسی و فوجی تجزیہ نگار سید طارق پیر زادہ نے ہمارے نیوز چینلوں پر بھارت اور ہندوستانی فوج کا بیجا استعمال کرنے کے لئے پیشہ ورانہ طریقے سے استعمال کرنے کے لئے بلایا۔تیزی سے پھیل رہے کٹر واد کی برصغیر میں لہر کے چلتے پیر زادہ کو ایک مثالی مہمان کی شکل میں دیکھا جاتاہے جو کٹر پسند پاکستانی نظریئے کی نمائندگی کرتا ہے۔ پیرزادہ بالکل ویسا ہی نام تھا جیسے خودساختہ نیوز چینل کا اینکر اسے بنانا چاہتے تھے۔ اتنا ہی نہیں پیر زادہ نے ہندوستانی فوج کو گندی زبان کا استعمال کرتے ہوئے تنقید کی اور لگے ہاتھ وارننگ بھی دے ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان ایک نیوکلیائی ملک ہے اور اب بھارت کو اسے سبق سکھانا ہی ہوگا۔ اس کے جارحانہ انداز مجھے ہندوستانی سنیما کے اس گیت کی طرح لگا ’آ دیکھیں ذرا کس میں کتنا ہے دم‘ بھارت کا موقف رکھنے کے لئے ایک بزرگ میجر جنرل بھی موجود تھے جو پیر زادہ کو اسی انداز میں جواب بھی دے رہے تھے۔ یہ تو تو مے مے کا دور پورے 30 منٹ تک جاری رہا اور پھر اشتہارکے دباؤ میں آخر کار اس اینکر کو بریک لینا پڑا۔ حساس ترین اشوز پر سنجیدہ بحثیں مانو کسی نوٹنکی کا احساس کرا رہی تھی اور بیوقوفی بھری دلیل اور بیجا وضاحت کے سوائے بحث میں کچھ بھی تو نہیں ہوتا۔ کنٹرول لائن کو بھول جائیے کیونکہ ہمارے یہاں اسکرین پر ٹی وی جنگ کھیلی گئی جہاں اسکرین میں صرف آگ کی کمی تھی۔ دراصل کسی بات کو سنسنی خیز طریقے سے بتانا ٹیلیویژن کو ریٹنگ پوائنٹ میں مانیتا دلاتا ہے اور اسی کے چلتے اخبارات کی دنیا میں انتہائی راشٹرواد کے نام پر تماشہ بیچا جارہا ہے۔ سنجیدہ بحث کے نام پر کھیلے جارہے اس گندے کھیل میں صبر یا تحمل کو کمزور بتایا جاتا ہے اور سیاسی طور پر وہی صحیح ہے جو بے خوف دھڑلے سے مردانگی کا ثبوت دے۔ اب وقت ہے ٹی وی کے اس ناپائیدار سچ کو سمجھنے کا جہاں ٹیلیویژن کے دھندے کو چمکانے کے لئے دیش کے نام پر لوگوں کو نہ صرف بیوقوف بنایا جارہا ہے بلکہ ورغلایا بھی جاتا ہے۔ کیا ٹی وی پر بیٹھے پیر زادہ جیسے لوگ واقعی بھی کسی کی نمائندگی کرتے ہیں؟ راجیو سرڈیسائی کا ہم شکریہ ادا کرتے ہیں کہ انہوں نے اس سچ کو اجاگر کیا ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟