پراکسی جنگ کو پراکسی طریقوں سے ہی لڑا جاسکتے ہے

کشمیر کے حالات بلا شبہ بیحد کشیدہ ہیں۔ فوج کے چیف جنرل بپن راوت کے کشمیر میں پتھربازوں سے نمٹنے کے لئے انسانی ڈھال کا استعمال کرنے کو صحیح ٹھہرانا اور ایسے حالات میں نئے طریقے ایجادکرنے سے متعلق بیان کو لیکر کچھ خود ساختہ سیکولر قسم کے لیڈروں نے تنازعہ کھڑا کرنے کی کوشش کی ہے۔ فوج کی جیپ پر ایک پتھر باز کو باندھنے والے میجرجنرل کی تعریف ہو یا پتھر بازوں کے خلاف سختی، سرکار اب کشمیر میں حساب کتاب برابر کرنے کے موڈ میں آچکی ہے لگتا ہے۔ خاص کر ساؤتھ کشمیر میں جہاں علیحدگی پسندوں کی نئی فوج پنپ رہی ہے اور وادی میں پھیلتی جارہی ہے۔ سرکار کے زیادہ چوکس رہنے کی وجہ سے جموں و کشمیر پولیس کی رپورٹ جس کے مطابق وادی میں قریب 282 دہشت گردوں میں 99 مقامی لوگ ہیں شامل بتایا ہے۔ لازمی ہے کہ سرکار اور فوج کا اصلی مقابلہ ساؤتھ کشمیر میں موجوددہشت گردوں ، علیحدگی پسندوں و پتھر بازوں سے ہے جو فوج اور حکومت کے درد سر کی بڑی وجہ ہے۔ فوج کے چیف نے صاف ہی کہا ہے کہ میجر لتل گگوئی کو سمانت کرنے کا اہم مقصد سکیورٹی فورسز کے حکام کا حوصلہ بڑھانا تھا جو دہشت گردی سے متاثرہ ریاست میں بہت مشکل حالات میں کام کررہے ہیں۔ میجر گگوئی کے خلاف ابھی بھی کورٹ آف انکوائری چل رہی ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ یہ پراکسی جنگ ہے اور پراکسی جنگ ڈرٹی وار ہے اسے پراکسی طریقے سے ہی نمٹنا چاہئے۔ جنگ کے قاعدے تب لاگو ہوتے ہیں جب حریف فریق آمنے سامنے سے لڑتا ہے۔ ادھر مارکسوادی لیڈر محمد سلیم نے جنرل راوت کے بیان کو فوج میں اخلاقی اقدار کو تلانجلی بتایا ہے۔ جبکہ بھاجپا اور کانگریس نے اس کی حمایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ دہشت گردی سے نمٹنے کے لئے فوج کو کھلی چھوٹ ملنی چاہئے لیکن پچھلے کچھ دنوں سے جس طرح برہان وانی اور ساتھی سبزار احمد کے علاوہ کئی دہشت گردوں کو مار گرایا ہے وہ تو یہ اشارہ دے رہے ہیں کہ اب فوج ہتھیار اٹھانے والوں پر نرمی برتنے کے موڈ میں نہیں دکھائی پڑتی۔ مرکزی سرکار کا نظریہ صاف ہے۔ پتھربازوں کے ساتھ نہ تو کوئی بات چیت ہوگی اور نہ ہی کوئی نرمی برتی جائے گی۔ 1990ء کے بعد ریاست کے حالات اتنے خراب نہیں رہے جتنے پچھلے کچھ برسوں میں رہے ہیں۔ فطری ہی ہے کہ سرکار پر حالات کو بہتر کرنے کا چوطرفہ دباؤ ہے۔ اتفاق ہی بات یہ بھی ہے کہ تشدد اب سکڑ کر ساؤتھ کشمیر کے کچھ ضلعوں تک محدود رہ گیا ہے۔ ایسے میں اگر اس شورش پر قابو نہیں پایا گیا تو انتظامیہ کے اقبال پر سوال اٹھنا فطر ی ہی ہے۔ ہم فوج کے چیف کے بیان کی حمایت کرتے ہیں اور فوج کے ہاتھ باندھ کر لڑائی نہیں لڑی جاسکتی۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟