پشو بد ھ قانون کیخلاف سیاسی مہا بھارت

مرکز کے نئے پشو بدھ قانون کے خلاف سیاست تیز ہوگئی ہے۔ مرکزی وزارت جنگلات و ماحولیات نے 26 مئی کو ایک نوٹیفکیشن جاری کر جانور بازار میں سلاٹر ہاؤس کیلئے جانوروں کی خریدو فروخت پر روک لگا دی تھی۔ نئے تقاضے کے تحت گائے، بیل، سانڈ، بدھیا، بچھڑے، بھینس اونٹ کو بازار میں لاکر قتل کے ارادے سے ان کی خریدو فروخت پر روک لگائی گئی تھی۔ اپوزیشن پارٹیاں اس کے خلاف صف بند ہونے لگی ہیں۔ مغربی بنگال ، پنڈوچیری اور کیرل کی حکومتوں نے کہا ہے کہ وہ اس فیصلے کو نہیں مانیں گی۔ اس پابندی کے خلاف پیر کو کیرل ہائی کورٹ میں ایک مفاد عامہ کی عرضی بھی داخل کی گئی ہے۔ مرکزی سرکار نے 26 مئی کو جانوروں کے خلاف ظلم روک تھام (مویشی بازار ریگولیشن ) قاعدہ 2017 نوٹی فائی کیا۔ اس کے مطابق دودھ دینے والے مویشیوں کی منڈیوں میں خریدو فروخت نہیں ہوگی۔ مویشی تبھی لایا جائے گا جب اس کے مالک کی پوری تفصیل منڈی میں جمع ہوجائے۔ خریدار اور سیلر دونوں لکھ کر دیں گے جانوروں کی کٹائی نہیں ہوگی۔ اس پر جانور کے مالک کے دستخط ہوں گے۔ گائے کے بارے میں آر ایس ایس اور اس سے وابستہ تنظیموں کے لوگ شروع سے ہی حساس رہے ہیں۔ بی جے پی بھی گؤ ہتیا کے بارے میں صاف رخ رکھتی آئی ہے لیکن پی ایم مودی سمیت پارٹی کے کئی نیتا بیچ بیچ میں گؤ رکھشکوں کے ذریعے قانون ہاتھ میں لینے کی سخت تنقید کرتے رہے ہیں۔ پی ایم مودی نے تو قانون ہاتھ میں لینے والوں کو کافی برا بھلا بھی کہا تھا لیکن گؤ رکھشا کا معاملہ پھر بھی کسی نہ کسی شکل میں گرم رہا ہے۔ جانور لے جانے والوں پر حملے نہیں رکے ہیں۔ مرکزی سرکار کے ذریعے سلاٹر ہاؤس کے لئے مویشی کی بکری پر پابندی لگادینے کے بعد یہ اشو اور بھی گرما گایا ہے اور رد عمل میں کانگریس اور دیگر پارٹیوں کے ورکر ساؤتھ اور مشرقی بھارت میں جو کچھ کررہے ہیں اس کا الٹا اثر نارتھ انڈیا اور دیگر حصوں میں بھی ہوسکتا ہے اس لئے تین طلاق کے بعد اب مویشیوں کا یہ معاملہ بھی بڑا اشو بن سکتا ہے۔ حالانکہ کہا جارہا ہے کہ احتجاج کو دیکھتے ہوئے مویشیوں کی بکری کی پابندی سے بھینس لفظ ہٹایا جاسکتا ہے۔ اصلی تنازعہ اسی پر ہورہا ہے کہ کام دھندے اور روز گار کو بڑی ٹھیس لگنے کی بات کہی جارہی ہے۔ کیا کھانا ہے اس پر آزادی پر بھی چوٹ پہنچنے کی بات ہورہی ہے۔ مویشیوں کی فروخت پر پابندی کو لیکر کیرل میں ورکروں نے بچھڑے کا بدھ کردیا۔ اگلے دن بھی واردات ہوئی۔ چنئی میں بیف پارٹی ہوئی۔ بنگلورو میں بھی کچھ چیزیں سامنے آئی ہیں، مالیگاؤں میں اس کے پلٹ سخت رد عمل ہوا ہے۔کیرل کے وزیر اعلی نے معاملے کو لیکر وزیر اعظم کو خط لکھا ہے۔ لیفٹ پارٹیوں کے نیتا ناراض ہورہے ہیں۔ مغربی بنگال کی وزیر اعلی و ٹی ایم سی کے لیڈر ممتا بنرجی نے تو پریس کانفرنس میں ناراضگی ظاہر کردی۔ انہوں نے کہا مرکز کا یہ فیصلہ غیر آئینی ہے۔ یہ ریاستوں کے دائرہ اختیار کا معاملہ ہے اور مرکز فیڈرل ڈھانچے کو چوٹ پہنچا رہا ہے۔ ممتا نے معاملہ کو کورٹ میں چیلنج کرنے کی بات بھی کہی ہے۔ کاٹنے کیلئے گؤ ونش کی خریدو فروخت پر پابندی کے فیصلے کو صحیح مانتے ہوئے مرکز نے قانون میں عام طور سے گؤ کاٹنے کے کئی شہروں میں بیف پارٹی کے انعقاد کو قابل تسلیم قراردیا ہے۔ مرکزی قانون منتری روی شنکر پرساد نے کہا کہ سرکار کسی پر کھانے کی عادتوں کو لیکر دباؤ نہیں بنا رہی ہے۔ اقلیتی امور وزیر مختار عباس نقوی نے الزام لگایا کہ اپوزیشن پارٹیاں ایک بار پھر دیش کا ماحول خراب کرنے کی سازش رچ رہی ہیں۔ اترپردیش کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ نے کیرل میں بیف فیسٹول کے انعقاد پر سوال اٹھاتے ہوئے ایک پروگرام میں کہا کہ دہلی یونیورسٹی اور جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے واقعات پر بولنے والے خود ساختہ سیکولر بیف فیسٹ پر کیوں خاموش ہیں؟ احتجاج کرنے والوں کی طرف سے یہ بھی دلیل دی جارہی ہے کہ ان کیلئے گؤ ماس کھانا ضروری ہے۔ وہ یہ دلیل اس بات کو اچھی طرح جانتے ہوئے بھی دے رہے ہیں کہ دیش کے زیادہ تر حصوں میں ایک بڑاطبقہ گائے کی تئیں عقیدت اور احترام رکھتا ہے۔ آخر اس طرح دوسروں کی عقیدت کو چوٹ پہنچانا کہاں کا قانون ہے؟ سوال یہ بھی ہے کہ کوئی کسی خاص جانور کے میٹ کے استعمال کی ضد کیسے پکڑ سکتا ہے۔جب کھانے پینے کی عادتیں بدل رہی ہیں اور ساری دنیا میں سبزی خوری پر زور دیا جارہا ہے تو کچھ لوگ گؤ ماس کے استعمال کو ضروری ثابت کرنے پر کیوں تلے ہوئے ہیں؟ کیا یہ بنیادی حق ہے؟ سوال یہ بھی ہے کہ جن ریاستوں میں گؤ میٹ کھانے پر روک نہیں وہاں کے نیتا کیوں بوکھلائے ہوئے ہیں؟ اب جب مرکزی سرکار کی طرف سے خودہی اس کے اشارے دے دئے گئے ہیں کہ وہ جانوروں کی خریدو فروخت سے متعلق قاعدوں میں ترمیم کرنے پر غور کررہی ہے تب پھر ان نیتاؤں کو ماحول خراب کرنے و سیاست چمکانے سے باز آنا چاہئے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟