لا اینڈ آرڈر انتظام یوگی آدتیہ ناتھ کیلئے سب سے بڑی چنوتی

لا اینڈ آرڈر کے نام پر سابقہ اکھلیش یادو کی حکومت کو گھیر کر قریب دو مہینے پہلے نئے تیور کے ساتھ اقتدار میں آئی یوگی آدتیہ ناتھ حکومت کے لئے یہی سب سے بڑا اشو بن کر ابھرا ہے اور یہی سب سے بڑی چنوتی بھی ہے وزیر اعلی کے سامنے۔میں نے اسی کالم میں ریاست میں بگرتے لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال سے آگاہ کیا تھا۔ یوگی حکومت اپنے ابتدائی 100 دنوں کے عہد کی رپورٹ کارڈ اگلے مہینے کے آخر تک جاری کرے گی۔ مگر بگڑتے لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال کو پٹری پر لانا سب سے بڑی چنوتی ہے۔ پردیش بھاجپا کا کہنا ہے کہ یوگی سرکار بننے کے بعد سے ریاست کی تصویر میں تبدیلی ضرور ہوچکی ہے بیشک یہ کئی سیکٹروں میں ہی صحیح کہا جارہا ہے کہ غنڈہ گردی ختم ہورہی ہے اور جرائم کا گراف گر رہا ہے۔ سرکار میں جنتا کا بھروسہ بحال ہورہا ہے مگر سہارنپور میں نسلی جھگڑا، بلند شہر ، سنبھل اور گونڈا میں حال ہی میں ہوئے فرقہ وارانہ واقعات نے سرکار کے لئے پریشانی کھڑی کردی ہے۔ زیادہ پریشانی کی بات یہ ہے کہ ان وارداتوں میں بھاجپا اور خودساختہ ہندووادی تنظیموں کے لوگوں کی شمولیت کے الزام لگے ہیں۔ پچھلے مہینے سہارنپور کے شبیر پور میں بھڑکے نسلی دنگے کے بعد راجپوتوں اور دلتوں کے درمیان بھائی چارہ قائم کرے میں اب تک کی کوششیں ناکافی ثابت ہوئی ہیں۔ اس کے الٹ ان میں ٹکراؤ ختم ہوتا دکھائی نہیں دے رہا ہے۔ سہارنپور ضلع پچھلے دس دنوں میں نسلی تشدد میں جل رہا ہے 2 لوگ مارے جاچکے ہیں اور6 سے زیادہ لوگ زخمی ہیں۔ تشدد سے متاثرہ دیہات میں دہشت اس قدر بڑھی ہوئی ہے کہ پولیس کے جوانوں کی گشت کے باوجود رات میں کوئی بھی ٹھیک سے سو نہیں پارہا ہے۔ زیادہ تر لوگ تو کام پر بھی نہیں نکل پارہے ہیں۔ جمناایکسپریس وے کے پاس چلتی کار کو روک کر قتل اور اجتماعی بدفعلی کی خوفناک واردات نے اترپردیش میں لاء اینڈ آرڈر کے سوال کو اس لئے کہیں زیادہ سنگین بنا دیا ہے کیونکہ مغربی اترپردیش تو پہلے سے ہی ناگزیں اسباب سے سرخیوں میں رہتا ہے۔ یوگی حکومت اس کو نظر انداز نہیں کرسکتی کہ ایک طرف سہارنپور میں نہ تھمتا نسلی تشدد اس کے لئے درد سر بنا ہوا ہے تو دوسری طرف لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال کو چنوتی دینے والے واقعات رکنے کا نام نہیں لے رہے ہیں۔ گڈ گورننس کے دعوی کو منہ چڑھانے والے واقعات تب سے ہورہے ہیں جب ریاستی سرکار لگاتار اس پر زور دے رہی ہے قانون کے خلاف کام کرنے والوں کو بخشا نہیں جائے گا۔آج جنتا پوچھ رہی ہے کیا اب ہم رات کوگھروں سے نکلنا بند کردیں؟ تب بھی نہ نکلیں جب ہمارا کوئی ہسپتال میں بھرتی ہو اور اسے ہماری سخت ضرورت ہو؟ تب بھی نہ نکلیں جب ہمارا کوئی محبوب اچانک کسی مشکل میں پڑ جائے؟ اگر یہ ساری تشویشات صحیح ہیں تو یہ سوال بھی صحیح ہے کہ آخر کس سماج میں ہم جی رہے ہیں؟ گریٹر نوئیڈا ایکسپریس وے سے اترتے ہی جیور سے بلند شہر کے راستے جو کچھ ہوا وہ ایسے کئی سوال چھوڑتا ہے کہ ایک خاندان مشکل میں پڑے اپنے رشتہ داروں کا دکھ بانٹنے ہسپتال جا رہا تھا ساتھ میں چار عورتیں اس لئے تھیں کہ ہسپتال میں بھرتی مریض بھی ایک خاتون تھی۔ اس کو ان کی فوری مدد درکار تھی۔ جیور سے لوگ تھوڑا آگے بڑھنے پر لٹیروں نے سڑک پر کوئی نوکیلی چیز پھینک کر پہلے ان کی گاڑی کا پنکچر کیا اور جب تک یہ کچھ سمجھ پاتے ان عورتوں کو لیکر چلے گئے اور ان کے ساتھ اجتماعی آبروریزی اور احتجاج کرنے والے لڑکے کو گولی مار دی گئی۔ حال ہی کے کچھ واقعات بتا رہے ہیں کہ سخت اور سندیش دینے والی کارروائی کی کمی سے حالات کیسے بگڑتے ہیں۔ اس واقعات کے بعد پولیس انتظامیہ کے ساتھ ریاستی سرکار کو کٹہرے میں کھڑا کیا جانا فطری ہے۔ اس نتیجے پر پہنچنے کے کافی ثبوت ہیں۔ پولیس نے بلند شہر کے واقع سے ضروری سبق لینے سے انکار کیا۔ آخر یہ خودساختہ بدمعاش گروہ کی کمر توڑنے کے ساتھ جرائم زدہ علاقوں کی نگرانی کا بنیادی کام کیوں نہیں کرسکی؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ بلند شہر کے واقعہ کے بعد جو دعوے کئے گئے تھے، وہ آدھے آدھورے تھے۔ ان سوالوں کا جواب جو بھی ہو یہ ٹھیک نہیں کہ اترپردیش میں لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال ایک ایسے وقت میں بحران میں ہے جب مودی سرکار اپنے عہد کے تین سال پورے ہونے کو لیکر جشن منا رہی ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟