ہائی وے پر شراب ٹھیکوں پر پابندی

قومی و صوبائی شاہراؤں کے کنارے شراب کی فروخت ممنوع کرنے کا عزت مآب سپریم کورٹ کا حکم لائق خیر مقدم ہے۔صحیح بات تو یہ ہے کہ شراب بندی کی بات توسبھی کرتے ہیں لیکن اسے نافذ کرنے میں کوئی بھی سرکار یا ریاستی حکومتیں دلچسپی نہیں رکھتیں۔ وجہ صاف ہے کہ انہیں زیادہ فکر محصول آمدنی کی رہتی ہے لیکن سپریم کورٹ نے اپنے تازہ فرمان میں صاف کردیا ہے کہ قومی شاہراؤں کے کنارے شراب کی دکانیں چلنے دینے کے پیچھے محصولات کی جائز وجہ نہیں ہوسکتی۔ فیصلے کا پیغام صاف ہے کہ انسانی زندگی اور پبلک ہیلتھ بالا تر ہے۔ پابندی ہائی وے کے 1500 میٹر دائرے میں نافذ ہوتی ہے۔ ہائی وے کے کنارے بنے موجودہ ٹھیکوں کے لائسنس کی بھی 31 مارچ کے بعد سے تجدید نہیں ہوگی۔ چیف جسٹس ٹی ایس ٹھاکر کی سربراہی والی بنچ نے ہائی وے کے کنارے لگے شراب کے اشتہار و سائن بورڈ ہٹانے کا بھی حکم دیا ہے۔ پچھلے ہفتے کورٹ نے سڑک حادثوں میں قریب ڈیڑھ لاکھ لوگوں کی موت پر تشویش جتائی تھی۔ 7 دسمبر کو اس سے وابستہ عرضیوں پر فیصلہ محفوظ رکھتے ہوئے سپریم کورٹ نے پنجاب سرکار کو سخت پھٹکار لگائی تھی۔ پنجاب سرکار نے سپریم کورٹ سے راحت کی مانگ کرتے ہوئے کہا تھاکہ ٹھیکے وہاں کھولنے کی اجازت دی جائے جہاں ایلیویٹڈ ہائی وے ہے۔اس پر سپریم کورٹ نے کہا کہ شراب لابی طاقتور ہے اس لئے پنجاب حکومت نے بڑی تعداد میں لائسنس دے رکھے ہیں۔ محکمہ آبکاری و وزیر اور سرکار خوش ہے کیونکہ وہ پیسہ بنا رہے ہیں۔ اس کی وجہ سے مرنے والوں کو ایک سے ڈیڑھ لاکھ روپے دئے جاتے ہیں۔ سرکار کو لوگوں کی بھلائی کے لئے بھی سوچنا چاہئے۔ عدالت میں داخل عرضیوں میں حادثات کے جو اعدادو شمار بتائے گئے ہیں وہ خوف پیدا کرنے والے ہیں۔ ان کے مطابق دیش بھر میں سال2015ء میں پانچ لاکھ حادثوں میں اتنی ہے لوگ زخمی ہوئے تھے۔ ڈیڑھ لاکھ لوگوں کی موت ہوگئی تھی اس کا مطلب ہے کہ ہر دن 1374 حادثوں میں 400 موت اور ہر گھنٹے اوسطاً 57 حادثوں میں 17 لوگوں کی موت ہوتی ہے۔ اس اندازے کو دیکھتے ہوئے یہ امید کی جاسکتی ہے کہ حکومتیں قومی شاہراؤں پر شراب کی بکری خود بند کریں گی لیکن ایسا نہیں ہوا۔ بہرحال شراب پی کر گاڑی چلانے کے علاوہ سڑک حادثات کے لئے کئی اور وجوہات بھی ذمہ دار ہیں۔ مثلاً بنیادی ڈھانچے کی خامی، زمینی ٹرانسپورٹ وزیر نتن گڈکری کہہ چکے ہیں کہ بھارت کے سڑک حادثوں کی اہم وجہ سڑکوں کی خراب ڈیزائننگ بھی ہے۔ اس کے علاوہ ہمارے دیش میں ٹریفک بھلے ہی تیزی سے بڑھتی رہی ہو لیکن ٹریفک سے متعلق ذمہ داریوں پر عمل بہت کم ہے۔ ہم ہر روز سڑکوں پر دیکھتے ہیں کہ چلانے والے کس طرح لاپرواہی سے گاڑی چلاتے ہیں۔ ٹریفک قاعدے ضوابط کو نظر انداز کرتے ہیں۔ ان قواعد پر عمل بھی محفوظ ٹریفک کا اہم تقاضہ ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟