چائے والا ارب پتی اور درزی کروڑ پتی:واہ کیا بات ہے

نوٹ بندی کے بعد مختلف ایجنسیوں کی جانب سے کالے دھن کے کبیروں کے خلاف کی جارہی کارروائی سے روز روز نئے نئے چونکانے والے خلاصے ہورہے ہیں۔ایسے ایسے لوگوں سے اتنی موٹی رقم پکڑی جارہی ہے جس کا تصور بھی کرنا مشکل ہے۔مثال کے طور پر گجرات کے سورت شہر میں ٹھیلے پر چائے پکوڑے بیچنے سے اپنے کیریئر کی شروعات کرنے والے شخص کے پاس سے 400 کروڑ روپے کی جائیداد ملنا۔ وہیں چنڈی گڑھ میں لوگوں کے کپڑے سل کر گزر بسر کرنے والے درزی کے پاس بھی قریب1 کروڑ سے زیادہ جائیداد ملی۔ ذرائع نے بتایا کہ کشور بھجیا والاکے ٹھکانوں پر چار دن پہلے چھاپہ مارا گیا تھا۔ اس کے ٹھکانوں اور لاکروں کی تلاشی میں ابتک 14 کلو سونا، 1 کلو کے ہیرو جواہرات جڑے زیورات،180 کلو چاندی، 95 لاکھ روپے کے نئے 2000 روپے کے نوٹوں سمیت1.33 کروڑ روپے سے زیادہ کی نقید برآمد ہوچکی ہے۔ اس کے علاوہ غیر منقولہ جائیدادکی کاغذات ملے ہیں جن کی تخمینہ قیمت قریب400 کروڑ روپے ہے۔ انفورسمنٹ ڈپارٹمنٹ نے چنڈی گڑھ میں نجی بینک ایچ ڈی ایف سی کے کسٹمر چیف بھوپندر سنگھ گل کو گرفتار کیا ہے۔ ای ڈی نے بتایا کہ چنڈی گڑھ کے کپڑا کاروباری اندر پال مہاجن کے گھر سے 13 دسمبر کو 2.19 کروڑ روپے کے نئے۔ پرانے نوٹ ملے۔ محکمہ انکم ٹیکس نے لدھیانہ کے ایک زیورات کی دوکان پر چھاپے ماری کر 9 لاکھ روپے کے نئے نوٹ ضبط کئے۔ اس دوران دوکان کے مالک نے 15.40 کروڑ روپے کی بے حساب جائیداد بھی افسران کو سونپی۔ بینکوں سے کالے دھن کو سفید کرنے کی کارگزاری کے روٹ کی جانچ ایجنسیوں نے پتہ لگا لی ہے۔ سرکار کو بینکوں میں معطل پڑے کھاتوں اور ڈورمینٹ کھاتوں میں اچانک لین دین کی جانکاری ملی ہے۔
وزارت مال کے ذرائع کی مانیں تو بینکوں میں فرضی کھاتوں اور جن دھن کھاتوں کے علاوہ ایسے کھاتوں کا پتہ چلا ہے جس میں پرانے نوٹ جمع کر نئے نوٹ اکھٹا کئے جارہے ہیں۔ان میں وہ کھاتے ہیں جو ایک سال سے زیادہ وقت سے کام نہیں کررہے۔ اس کے علاوہ بڑی تعداد میں ڈورمینٹ کھاتے بھی ہیں۔ یاد رہے کہ یہ ایسے کھاتے ہوتے ہیں جن میں قریب 24 ماہ تک کوئی لین دین نہیں ہوا ہوتا۔ بینک میں باقاعدہ اس کی فہرست رکھی جاتی ہے اور نوٹ بندی کے بعد اس فہرست کا استعمال کچھ بینک ملازم اور افسران نے پرانے نوٹوں کو نئے سے بدلنے میں کیا ہے۔ ذرائع کے مطابق ہربینک برانچ میں ایسے کھاتوں کی تعداد 4سے6 فیصد تک ہوتی ہے۔ سی بی ڈی ٹی کے ذرائع کے مطابق بینکوں کی چیسٹ سے اے ٹی ایم میں نئی کرنسی کو بھیجنے کے عمل میں بھی بڑی تعداد میں گڑ بڑیاں پائی گئی ہیں۔ اس معاملے میں بینکوں کے اعلی افسران کو متعلقہ بینک ملازمین سے روزانہ رپورٹ لیکر ایک رپورٹ ایل آئی یو کو بھیجنے کوکہا گیا ہے۔ 65 سے70 فیصد اے ٹی ایم آؤٹ سورسنگ پر کام کررہے ہیں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟