سال میں کئی بار کہیں نہ کہیں 16 دسمبر دوہرایا جارہاہے

16 دسمبر آتے ہیں ہمیں وسنت وہار میں رونما نربھیا کانڈ کی یاد تازہ ہوجاتی ہے۔ 16 دسمبر 2012ء کانڈ آج بھی سبھی دیش واسیوں کو دہلا دیتا ہے۔ تلخ حقیقت تو یہ ہے کہ اتنے برس گزرنے پر بھی کچھ بھی نہیں بدلا۔ اجتماعی آبروریزی کی متاثرہ کے گھروالوں سے کئے گئے وعدے آج بھی ادھورے ہیں۔ نربھیا ہم شرمندہ ہیں ، تمہارے قاتل آج بھی زندہ ہیں، ایسا کوئی دن نہیں جاتا جب شام ہونے کے بعد خواتین کے ساتھ کوئی نہ کوئی واردات نہیں ہوتیں۔ بھارت سرکار کے اعدادو شمار کی مانیں تو عورتوں کے تئیں جرائم میں 18 فیصدی اضافہ ہوا ہے۔ نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق چار سال پہلے کے مقابلے میں 10 ہزار سے زیادہ محض آبروریزی کے معاملوں میں اضافہ ہوا ہے۔ چونکانے والے حقائق یہ ہیں کہ سزا کی شرح محض 29 فیصدی پر آ ٹکی ہے۔ مطلب ایک سال میں 100 میں سے29 ملزمان کو ہی سزا ہوپا رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا نربھیا کانڈ کے بعد ہوئے تمام ہنگامے اور وعدے، اعلانات کے باوجود کیا اس طرح کی واردات کو روکا جا سکے ؟ نہیں بالکل نہیں۔ دیش کی راجدھانی ہونے کے باوجود خواتین جرائم میں کمی نہیں آئی ہے۔ 16 دسمبر کے سانحہ کے بعد دیش کی سب سے بڑی عدالت نے کئی فیصلے کئے تھے جس میں عدلیہ اور انتظامیہ کو جوڑا گیا تھا۔ گھناؤنے جرائم کو روکنے کے لئے اعلی اختیار یافتہ رٹائرڈ ججوں کی دو کمیٹی بنی تھیں جس میں ایک سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جے۔ ایس ۔ ورما کی کمیٹی تھی اور دوسری دہلی ہائی کورٹ کی جج اوشا مہرہ کی کمیٹی تھی۔ دونوں نے کئی سفارشیں کی تھیں اس میں سے زیادہ تر بحث کا اشو بن کر کاغذوں میں سمت گئیں۔ اگر خواتین کرائم میں اضافہ ہورہا ہے تو اس کے لئے عدلیہ اور انتظامیہ قصور وار ہے لیکن سیاسی سطح پر قوت ارادی کی کمی صاف نظر آتی ہے۔ دکھ سے یہ بھی کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے سماج میں بھی کوئی تبدیلی نظر نہیں آئی۔ پولیس کے مطابق آبروریزی کے زیادہ واقعات قریبی رشتے دار کرتے ہیں اس میں جج کیا کریں گے، پولیس کا کرے گی؟ مہلا سرکشا انتظام کتنے نا کافی ہیں اس کا اندازہ اسی سے لگایا جاسکتا ہے کہ آج بھی تھانوں میں مہلا ڈیکس نہیں ہے ۔ اتنا طے ہے کہ مہلا سرکشا کو لیکر اب تک کی گئیں کوششیں نا کافی ہیں۔ صرف پولیس کو ہر ٹائم کوسنے سے کام نہیں چلے گا۔ راجدھانی کے ہر علاقے میں پولیس والا نہیں ہوسکتا۔ ذمہ داری تو سبھی کو اپنی طے کرنی ہوگی۔ کہیں بھی کچھ غلط ہو رہا ہے تواپنے پرائے کا فرق کئے بغیر اس کی مخالفت کرنی ہوگی۔ اگر آپ چپ رہتے ہیں تو کل کو دوسرا بھی چپ رہے گا۔ یہی خاموشی ناپاک ارادوں کو تقویت دیتی ہے۔ انہی اسباب سے سال میں کئی بار کہیں نہ کہیں 16 دسمبر کا واقعہ دوہرا دیا جاتا ہے۔ آج بھی وہی سوال کھڑے ہیں جو16 دسمبر 2012ء کو تھے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟