کیا پراپرٹی تنازعہ کے سبب تنزیل احمد کا قتل ہوا

سرخیوں میں چھائے این آئی اے کے ڈی ایس بی تنزیل احمد قتل کانڈ کو یوپی پولیس نے سلجھانے کا دعوی کیا ہے۔ اس کے مطابق سارا معاملہ پراپرٹی تنازعہ کا تھا نہ کے کوئی دہشت گردانہ واردات۔ پولیس کے مطابق ہسٹری شیٹر منیر نے دو ساتھیوں کے ساتھ مل کر تنزیل احمد پر تابڑ توڑ گولیاں داغ کر اس واردات کو انجام دیا۔ اس واردات میں تنزیل احمد کی بیوی فرزانہ خاتون بھی بری طرح زخمی ہوگئی تھیں جن کا بعد میں ایمس کے ٹراما سینٹرمیں بدھوار کی صبح پونے گیارہ بجے انتقال ہوگیا۔ جب حملہ آوروں ے 3 اپریل کو حملہ کیا اس وقت فرزانہ اپنے شوہر اور بچوں کے ساتھ ایک شادی میں شرکت سے لوٹ رہی تھیں۔پٹھانکوٹ آتنکی حملہ کی جانچ کررہی ٹیم کے ممبر رہے این آئی اے کے انسپکٹر تنزیل احمد کو گولیوں سے بھون دیا گیا تھا۔ بریلی زون کے آئی جی وجے سنگھ مینا نے بتایا کہ قتل کی وجہ پراپرٹی جھگڑا، رنجش اور بینک لوٹ کی مخبری کرنے کا شبہ تھا۔ منیر نے پہلے پستول سے چار راؤنڈ گولیاں داغیں اور پھر ریوالور اور دوسری پستول سے دونوں ہاتھوں سے گولیاں چلا کر تنزیل احمد کوچھنی کردیا۔ منیر بائیک پر پیچھے بیٹھا تھا۔ بعد میں ریان نے بھی تنزیل پرفائر کیا۔ اس دوران منیر نے ریان سے کہا کہ بہت مخبری کرتا تھا، واردات میں شامل منیر کے دونوں ساتھیوں ریان اور جیری کو گرفتار کرلیا گیاہے۔منیر ابھی بھی پکڑا نہیں جاسکا۔ واردات کے دن ریان اپنے والد کے ساتھ سہوارہ بندھن منڈپ میں شادی پر گیا تھا۔ قریب 10 بجے وہاں سے لوٹا اور اسی وقت جیری کو لیکر سی بی زیڈ بائیک سے سہسپور کے باہری علاقے میں آگیا۔ وہاں پہلے سے ہی منیر انتظار کررہا تھا۔ کچھ دیر بعد تنزیل کی گاڑی نکلتے ہی دونوں بائیک پر ان کے پیچھے لگ گئے۔ سہسپور کے پاس کار کو اوور ٹیک کیا اور پلیا کے پاس کار دھیمی ہوئی تو منیر نے گولی چلادی۔ پستول خراب ہونے پر ریوالور سے گولیاں برسا کر مار ڈالا۔آئی جی نے بتایا کہ قتل کی کئی وجہ سامنے آئی ہیں۔ ریان نے بتایا کہ اس کی بوانکہت اور پھوپھا تسلیم کا دہلی کے رنجیت نگر میں پڑوسی سے جھگڑا ہوگیا تھا جس میں پھوپا کو جیل جانا پڑا تھا لیکن تنزیل نے کوئی مدد نہیں کی تھی ، قتل کی ایک وجہ یہ بھی بنی۔ منیر کو تنزیل پر مخبری کرنے کا شبہ تھا۔ آئی جی نے بتایاکہ منیر نے اپنے ساتھی کے ساتھ مل کر دھانپور کے پی این بی کی کیش وین سے 91 لاکھ روپئے لوٹے تھے اور لوٹ کے بعد سہسپور کے کچھ لڑکوں کو حراست میں لیا گیا تھا۔ ان لڑکوں نے منیر کو بتایا تھا کہ پولیس لوٹ میں اس کا نام لے رہی ہے۔ یہ کام تنزیل کے علاوہ اور کوئی نہیں کرسکتا تھا۔ منیر نے یہیں سے ٹھان لی کہ تنزیل کو ٹھکانے لگانا ہے۔ منیر کو بھڑکانے میں ریان کا ہاتھ تھا۔ ریان تنزیل سے رشتے داروں کو بے عزت اور ٹارچر کرنے سے ناراض تھا ۔ اس کے علاوہ دو پلاٹ کو لیکر بھی منیر اور تنزیل کے درمیان جھگڑاتھا۔ ان تینوں وجہ سے ان سب نے تنزیل کو قتل کرنے کا پلان بنایا۔ اس قتل کی سب سے اہم کڑی مانی جانی والی تنزیل کی بیوی فرزانہ کی موت سے اس قتل کی جانچ کو زبردست جھٹکا لگا ہے۔ فرزانہ اس قتل کانڈ میں ہتیاروں کے لئے سب سے بڑی گواہ تھی۔ واردات میں انہیں بھی تین گولیاں لگی تھیں انہوں نے قاتلوں کو سب سے نزدیک سے دیکھا تھا۔ ایک بات سمجھ میں نہیں آرہی ہے کہ ممکن ہے قاتلوں کو تنزیل احمد سے دشمنی ہو لیکن بیوی بچوں کی موجودگی میں اس طرح قتل کرنا، حملہ کے وقت دونوں بچے پچھلی سیٹ پر بیٹھے تھے؟ شکر ہے کہ وہ بچ گئے۔ کیا اس قتل کانڈ کی وجہ شاہین باغ کی کروڑوں روپئے کی ایک دوکان سے لوٹی گئی رقم اور بینک وین سے لوٹی گئی 91 لاکھ روپئے کے ذریعے مبینہ طور سے تنزیل کا ہڑپنا بھی کیا ایک وجہ تھی؟ ریان نے بھی پولیس کے سامنے بتایا کہ تنزیل اور منیر دونوں پراپرٹی کی خریدو فروخت کے دھندے میں ساتھ ساتھ تھے۔ دھامپور بینک لوٹ کی رقم منیر نے تنزیل کے ذریعے پراپرٹی میں لگا دی تھی لیکن یہ ساری پراپرٹی تنزیل نے کس کے نام خریدی اس بات کی جانکاری ابھی تک نہیں مل پائی ہے۔ پولیس اس اینگل کی بھی تحقیقات کررہی ہے۔
(انل نریندر) 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟