شنی شنگنا پور مندر میں 400 سال پرانی روایت ٹوٹی

نوراترے کے پہلے دن خواتین کو پوجا کرنے کے حق میں چل رہی کئی دنوں سے جدوجہد میں آخر کار کامیابی حاصل ہوگئی۔ مہاراشٹر کے احمد نگر میں واقع شنی شنگنا پورمندر میں 400 سال پرانی روایت جمعہ کو ٹوٹ گئی۔ اب مردوں کے ساتھ خواتین کو بھی چبوترے پر پوجا کرنے کی اجازت مل رہی ہے۔ پابندی کے باوجود مردوں کے چبوترے پر داخلے کے بعد ٹرسٹ کے سکریٹری جنرل دیپک دادا صاحب نے کہا کہ ہم نے آئین کا احترام کرتے ہوئے سب کو پوجا کرنے کی اجازت دے دی ہے۔ ٹرسٹ کی چیئرمین انیتا شیٹے نے کہا کہ خواتین پر کوئی روک ٹوک نہیں ہوگی۔ یہ فیصلہ لائق خیر مقدم ہے کہ نوراتر کے پہلے دن ہی شنی شنگنا پور مندر میں خواتین کو پوجا کرنے کی اجازت دی گئی۔ انہوں نے کہا ریتی رواج کے حساب سے پوجا ارچنا کر بھی لی۔ مندر ٹرسٹ نے سمجھداری بھرا فیصلہ کیا ہے حالانکہ ہوسکتا ہے یہ فیصلہ اسے ان حالات کے دباؤ میں کرنا پڑا ہو۔ ہندوستانی نئے سال کو مہاراشٹر میں گڑی پاروا کی شکل میں منایا جاتا ہے۔ مراٹھی معاشرے میں اس پرو کی خاص اہمیت ہے۔ اس دن عدالت کے فیصلے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مقامی مرد اس چبوترے پر پہنچ گئے جہاں شنی کی مورتی ہے، اور انہوں نے مورتی کو دودھ و تیل سے نہلایا۔ گڑی پاروا کے دن یہ مقامی رسم رہی ہوگی، لیکن اس سے تنازعہ کھڑا ہونے کا اندیشہ تھا اس لئے مندر ٹرسٹ نے عورتوں کو بھی چبوترے پر چڑھنے کی اجازت دے دی۔ وجہ جو بھی ہو یہ فیصلہ پہلے ہی ہو جانا چاہئے تھا، کیونکہ یہ وقت کی ضرورت ہے۔ ویسے یہ اچھا نہیں ہوا کہ عورتوں کو مندر میں پوجا کرنے کی اجازت ہائی کورٹ کی مداخلت کے بعد ملی۔ یہ ایک ایسا مسئلہ نہیں تھا جس میں عدالت کو دخل دینے کی ضرورت پڑتی۔ جس طرح ہائی کورٹ کو عورتوں کو پوجا کرنے کی اجازت دینے کے ساتھ یہ رائے زنی کرنی پڑی کہ ایسا کوئی قانون نہیں ہے جو عورتوں کو کسی بھی دھرم استھل میں جانے سے روکتا ہو۔ اس سے کل ملاکر سماج کو یہی پیغام گیا کہ اگر عدلیہ سرگرم نہیں ہوتی تو شاید شنی شنگنا پور مندر میں عورتوں کو مردوں کی طرح پوجا کرنے کی سہولت ملنے میں اور وقت لگتا۔ زیادہ تر دھارمک استھلوں پر لنگ، جاتی، دھرم وغیرہ کو لیکر جس طرح کی پابندیاں ہیں انہیں روایت اور شاستر ۔سمبج بتایا جاتا ہے، لیکن اگر تاریخ اور روایت کو ذہن میں رکھا جائے تو ایسا نہیں ہے۔ یہ دیکھا گیا ہے اکثر شروع میں دھارمک مقامات پر سب کو جانے کی آزادی ہوتی ہے پھر آہستہ آہستہ کرم کانڈ زیادہ بڑھنے لگتے ہیں اور ساتھ ساتھ طرح طرح کے قاعدے بھی بدلتے چلے جاتے ہیں۔ مندر یا ممبئی میں حاجی علی کی درگاہ کے منتظمین کو یہ نہیں سوچنا چاہئے کہ اس معاملے میں انہیں خاص طور سے نشانہ بنایا جارہا ہے۔ کسی وقت دلتوں کے مندر میں داخلے کو لیکر تحریک چلی تھی کیونکہ وہ وقت کی مانگ تھی ،ویسے ہی آج نہیں تو کل مذہب کے نام پر ، شاستروں کے نام پر سبھی مرد امتیاز کے خلاف آواز اٹھتی رہی۔ یہ ایک اتفاق مانا جانا چاہئے کہ شنی شنگنا پور مندر اس کی علامت بن گیا ہے۔ اچھا ہو کہ شنی شنگنا پور مسئلے پر سنت سماج بیدار ہو اور مرضی سے یہ دیکھے کہ مندروں میں پوجا ارچنا کے معاملے میں کسی طرح کا امتیاز نہ ہو۔ یہ وقت سماج کو متحد رکھنے اور بیچ میں نہ ذات ،خطہ یا جنس آئے اور جو آرٹیفیشل دیواریں کھڑی کی گئی ہیں انہیں ڈھا دیا جائے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟