خوشک سالی سے نمٹنے کیلئے پختہ قوت ارادی اور پلاننگ ضروری

ملک میں اگر ایک بڑا حصہ خوشک سالی سے بدحال ہے تو وہ سرخیوں میں عدالتی احکامات کی وجہ سے ہی کیوں آتا ہے؟ دیش پانی کے بحران سے گزر رہا ہے۔ اس قدر کے بدھوار کو سپریم کور اور بمبئی ہائی کورٹ دونوں میں پانی کے اشو پر سماعت ہوئی ۔ اس دوران عدالت ہذا نے مرکزی حکومت کو پھٹکار لگاتے ہوئے کہا کہ 10 ریاستوں میں خوشک سالی کی مار سے وہاں کی عوام مشکلات سے دوچار ہے درجہ حرارت 45 ڈگری تک پہنچ گیا ہے۔ لوگوں کے پاس پینے کے لئے پانی نہیں ہے۔ حالات خراب ہوتے جارہے ہیں، ایسے میں آپ آنکھیں کیسے بند کر سکتے ہیں؟ انہیں مدد پہنچانے کے لئے کچھ تو کیجئے۔ پچھلے دو برسوں سے کم بارش کی وجہ سے مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ، جھارکھنڈ، مہاراشٹر ، کرناٹک، اڑیسہ، اترپردیش، تلنگانہ، راجستھان اور آندھرا پردیش میں اپریل سے ہی خوشک سالی کے حالات ہیں اور خوشک سالی کی آگ سے جھلس رہے اترپردیش کے علاقے بندیل کھنڈ میں تمام دشواریاں کھڑی ہوگئی ہیں۔ پانی کیلئے بچوں کو پڑھائی چھوڑنا پڑ رہی ہے تووہیں تنگ حالی میں ماں باپ اپنی بیٹیوں کے ہاتھ تک پیلے نہیں کر پارہے ہیں۔ کھیت ویران پڑے ہوئے ہیں۔ دیہات کے اندر اور مسائل کھڑے ہوگئے ہیں ۔پینے و دیگر گھریلو ضروریات کو پورا کرنے کے لئے پانی کا انتظام بندیل کھنڈ کے دیہی علاقوں میں بڑی چنوتی بنا ہوا ہے خاص طور پر خواتین کے لئے۔ انہیں پانی کے لئے میلوں سفر کرنا پڑتا ہے۔ بچے بھی پانی کے انتظام میں لگے ہوئے ہیں۔ دیہات میں سائیکل پر پانی کے برتن ٹانگ کر میلوں سفر کرتے ہیں۔ ٹیکم گڑھ میں تو پینے کا پانی تھانے سے دیا جارہا ہے۔ بندیل کھنڈ میں پانی کی کمی بچوں کی پڑھائی تک کو متاثر کررہی ہے۔ بچے پڑھائی چھوڑ کر گھر کے لئے پانی کے انتظام میں لگے رہتے ہیں۔ خاص طور پر لڑکیاں ۔ایک علاقہ چندر نگر کی لڑکیں مسکان اور روشنی بتاتی ہیں کہ وہ دیہات کے اسکول میں پڑھتی ہیں لیکن آج کل اسکول نہیں جا پارہی ہیں کیونکہ صبح سے ہی انہیں گاؤں کی دوسری طرف لگے ہینڈ پمپ پر پانی بھرنے جانا پڑتا ہے۔ دن میں کبھی کبھی تو 14 سے15 چکر لگانے پڑتے ہیں۔ دیش کے دو اہم ریزروائر میں صرف25 فیصدی پانی بچا ہے۔ متاثرہ ریاستوں میں90 فیصدی زمینی پانی کا استعمال ہوچکا ہے ۔ یعنی زمین صرف10 فیصد پانی بچا ہے۔ تبدیلی آب و ہوا کی وجہ سے بارش کم ہونے ، شہری علاقوں میں بارش کے پانی کے اکھٹا نہ ہونے اور رہن سہن میں آئی تبدیلی کی وجہ سے آبی وسائل کی لمبی توقعات سے یہ حالت پیدا ہوئی ہے، ایسے میں قومی سطح پر پانی بچانے زیرزمین پانی سطح کو بڑھا دینے کی اسکیموں کو مسلسل چلائے جانے کی سخت ضرورت ہے لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا نتیجتاً ہر سال گرمی میں ایک کے بعد ایک ریاست میں پانی کی قلت کا بحران پیدا ہوجاتا ہے۔ نتیجے میں پانی کے لئے جھگڑا فساد ہونے ، آبی وسائل پر پہرہ بٹھانے لوگوں اور جانوروں کے مارے جانے اور گاؤں گاؤں خالی ہونے کی خبریں آنے لگتی ہیں۔ودربھ اور بندیل کھنڈ جیسے علاقوں میں پانی پر جھگڑے بھڑکنے کی نوبت آرہی ہے۔ کچھ علاقوں میں پانی پر جھگڑا اورمار پیٹ خون خرابے تک کے حالات پیدا ہونے لگے ہیں۔ جن علاقوں میں نہر نہیں ہے وہاں کا حال تو بہت برا ہے۔ زمینی پانی کی سطح کافی نیچے جا چکی ہے۔ کنویں ،تالاب، ٹیوب ویل سب سوکھ چکے ہیں۔ دیہی زندگی اس سے کتنی بد حال ہورہی ہوگی اس کا اندازہ اسی سے لگایا جاسکتا ہے مسلسل تیسرے برس اسے موسم کی یہ مار جھیلنی پڑ رہی ہے۔ ایسے میں منریگا کی رقم جاری کرکے دیہات کو راحت پہنچانے کا حکم بھی عدالتوں کو دینا پڑ رہا ہے۔ کاش !یہ حالات بدلیں۔ پورا دیش جس خوفناک خوش سالی کا سامنا کررہا ہے اس کا مقابلہ کرنے کے لئے سیاسی الزام تراشی نہیں، بلکہ اجتماعی قوت ارادی، تیاری اور ہمدردی چاہئے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟