بھارت کا کسان بدحال و پریشان

بھارت ایک زراعت کفیل ملک ہے۔ ہندوستانی معیشت کی بنیادزراعت ہے۔گھریلو پیداوار میں زرعی اور اس سے متعلق میدانوں کا اشتراک 2007-08 اور 2008-09 اور 2010-11 کے دوران بسلسلہ 17.8 ، 17.1 اور 14.5 فیصد رہی۔ ہندوستانی زرعی پیداوار ابھی بھی مانسون پر منحصر کرتی ہے کیونکہ تقریباً55.7فیصد زراعت بارش پر منحصر ہے۔ ہندوستان کا کل جغرافیہ حدودربا 3287 کروڑ ایکڑ ہے جس سے 14.03 کروڑ ہیکٹیر میں کھیتی کی جاتی ہے۔ اس نظریئے سے بھارت کے کسان کو دیش کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی کہا جائے تو کوئی قباحت نہیں ہوگی۔ آج کسان کھیتی باڑی چھوڑنے پر مجبور ہورہا ہے۔ خسارے کا سودا ہونے کی وجہ سے ہر روز ڈھائی ہزار کسان کھیتی چھوڑ رہے ہیں اور تو اور دیش میں ابھی کسانوں کی کوئی ایک بھی تشریح نہیں ہے۔ مالیاتی منصوبوں میں، قومی جرائم ریکارڈ بیورو اور پولیس کی نظر میں کسان کی الگ الگ تشریح ہے۔ ایسے میں کسان مفادات سے وابستہ لوگ سوال اٹھا رہے ہیں کہ کچھ ہی وقت بعد پیش ہونے والے عام بجٹ میں گاؤں ، کھیتی اور کسان کو بچانے کیلئے ہندوستانی وزیر مالیات کیا پہل کریں گے؟ اتار چھڑاؤ کے درمیان زرعی ترقی رفتار نہیں پکڑ رہی ہے۔ وزارت زراعت کے اعدادو شمار کے مطابق 2012-13 میں زرعی ترقی شرح 1.2 فیصد تھی جو 2013-14 میں بڑھ کر 3.7 ہوگئی اور 2014-15 میں یہ گھٹ کر 1.1 فیصد پر آگئی۔ پچھلے کئی برسوں میں بوائی کے رقبے میں18 فیصد کی کمی آئی ہے۔ ماہرین کے مطابق کئی رپورٹوں کو دھیان سے دیکھنے پر زرعی علاقے کی بدحالی کا اندازہ اسی سے لگایا جاسکتا ہے کہ پچھلی دو دہائی میں بھاری تعداد میں کسان خودکشی کر چکے ہیں۔ زیادہ تر خودکشی کی وجوہات قرض ہے جسے چکانے میں کسان لاچار ہے جبکہ 2007 سے 2012 کے درمیان قریب3.2 کروڑ گاؤں والے جس میں کافی کسان ہیں، شہروں کی طرف ہجرت کر پائے ہیں۔ ان میں سے کافی لوگ اپنی زمین اور گھر بار بیچ کر شہروں میں چلے گئے ہیں۔ گاؤں سے ہجرت کرنے کے بعد کسانوں اور کھیتی مزدور کی حالت یہ ہے کہ کوئی ہنر نہ ہونے کی وجہ سے ان میں سے زیادہ تر کو مزدوری یا یومیہ دہاڑی کرنی پڑتی ہے۔ 2011ء کی مرد م شماری کے مطابق ہرروز ڈھائی ہزار کسان کھیتی چھوڑ رہے ہیں۔ بھاری تعداد میں گاؤں سے لوگوں کی ہجرت ہورہی ہے جس میں سے زیادہ تر کسان ہیں۔ قومی کرائم بیورو، این سی آر بی کے پچھلے پانچ برسوں کے اعدادو شمار کے مطابق 2009 ء سے 17 ہزار، 2010ء میں 15 ہزار، 2011ء میں 14 ہزار ،2012 ء میں 13 ہزار، 2013ء میں 11 ہزار سے زیادہ کسانوں نے کھیتی باڑی سے جڑی دشواریوں سمیت دیگر وجوہات سے خودکشی کی راہ چنی۔کسانوں کے لئے مشکل کی بات یہ ہے کہ پوری دنیا میں اناج کے بھاؤ کم ہوئے ہیں۔ اگر پیداوار گھٹے گی تو کسان کو اقتصادی تنگی کا سامنا کرنا پڑے گا اور یہ کسان کی پریشانیوں کو اور بڑھا سکتا ہے۔بندیل کھنڈ وکاس آندولن کے لیڈر آشیش ساگر نے بتایا کہ کھیتی کسان کا خرچ بڑھا ہے لیکن کسانوں کی آمدنی کم ہوئی ہے جس سے کسان اقتصادی تنگی کے چکر میں پھنس گیا ہے۔ کسانوں کی آمدنی قومی سطح پر اوسطاً کم ہے۔ ایسے میں کسان سرکار سے کسی طرح کی مالی امداد نہیں مانگ رہا ہے، وہ اپنی فصلوں کیلئے کم ازکم مناسب قیمت مانگ رہا ہے تاکہ دیش کے لوگوں کے ساتھ ساتھ اپنے پیٹ بھی ٹھیک سے بھر سکے۔اس سنگین مسئلے پر بروقت مرکز اور ریاستی حکومتوں کو سنجیدہ ہونا پڑے گا اور ان پر باقاعدہ حکمت عملی بنانی ہوگی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ آنے والی دہائیوں میں غذائی ضروریات میں اضافے کے چلتے متبادل غذائی اجناس مثلاً دودھ ، مکھن اور انڈے وغیرہ کی پیداوار کے متبادل پر توجہ دینے کی ضرورت ہے کیونکہ کھیتی کے برابر روزگار کے لئے نئے متبادل کی ضرورت محسوس کی جارہی ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟